تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

آدمی کہتے ہیں‌ جس کو….(لیاری کے ایک مزدور کی کہانی)

مصنف: عبداللطیف ابُوشامل

عجیب بے تکا انسان ہے وہ۔ لوگ مارے مارے پِھر رہے ہیں، اپنی سہولتوں میں اضافے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور وہ سب سے الگ تھلگ اپنی زندگی آپ جی رہا ہے۔

وہ میرا دوست ہے، داد محمد بلوچ، جسے ہم سب بہت پیار سے دادُو کہتے ہیں، بہت عزیز دوست۔ لیکن میں اس سے بہت تنگ ہوں اور مجھے اس کی ایک عادت سے چڑ ہے۔

ہم سب اتنی آسودگی میں بھی پریشان ہیں اور وہ پریشانی میں بھی مطمئن ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کوئی بہت بڑا طرّم خان ہے۔ ارے بھئی، وہ بہت معمولی سا انسان ہے۔ لیاری میں دو کمروں کے گھر میں یوں رہتا ہے جیسے بہت بڑے محل میں رہتا ہو۔ پانی، فون نہ فریج اور تو اور اس کے مکان کی چھت بھی شیٹوں کی ہے۔ اتنی گرمی کہ خدا کی پناہ۔ اور جب کبھی میں اس سے ملنے جاتا ہوں، اسے مطمئن پاتا ہوں۔

چلو اتنی سی بات بھی ہوتی کہ وہ اپنے حال میں مست ہے تو بھی مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی، وہ گاؤدی تو اپنے جیسے لوگوں کو اپنے حالات بدلنے پر اکساتا رہتا ہے، اپنی قسمت آپ بناؤ، حق مانگنے سے نہیں ملتا، حق چھیننا پڑتا ہے، اپنی محنت کا صحیح اجر طلب کرو، کوئی تم پر ظلم کرے تو اس کے سامنے ڈٹ جاؤ اور نہ جانے ایسی کتنی ہی بکواس۔

ابھی کچھ دن پہلے میں اس کے گھر گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلایا۔
”اڑے، آگیا تم…… آج کدھر سے نازل ہوگیا؟ بیٹھو، بیٹھو۔“ کہہ کر اس نے اپنی بیوی کو آواز دی، ”اڑے صاحب لوگ آگیا نیک بخت، پانی وانی پلاؤ اس کو۔“

”بھائی سلام“ کے ساتھ ہی پیتل کے وزنی گلاس میں پانی میرے سامنے تھا۔
”اور بہن تم کیسی ہو…..؟“

”شکر ہے بھائی، بچہ لوگ کیسا ہے آپ کا…..؟“

میں نے اسے سب کی خیریت سے آگاہ کیا۔ پانی کا گھونٹ لیتے ہی میں پھٹ پڑا، ”دادو، اتنا گرم پانی! اس میں روپے دو روپے کا برف ہی ڈال دیا کرو۔“

”ہاں صحیح بولتا ہے تم۔ باپ کا برف خانہ ہے ناں ادھر، اڑے پیتا ہے تو پیو، نہیں پیتا ہے تو پیاسا مرو، اپنا بھاشن اپنے پاس رکھو۔“

میں نے گلاس پانی پیے بغیر نیچے رکھ دیا جسے وہ اٹھا کر غٹاغٹ پی گیا۔
”اور بولو خوار، کیا کرتا پڑا ہے آج کل تم…..“

یار، بس وہی لکھنا پڑھنا اور کیا کروں، بہت پریشان ہوں گرمی سے۔“
وہ بہت زور سے ہنسا۔

”اڑے، کدھر ہے گرمی؟ تمہارا گاڑی میں اے سی، گھر میں اے سی، دفتر میں اے سی، پھر کدھر ہے گرمی؟ تم لوگ کا بس نہیں چلتا کہ اپنے اندر بھی اے سی فٹ کرالو۔ اڑے تم لوگ ایک کام کرو۔ اپنا قبر میں بھی اے سی لگانا….!!

اس کی ایسی ہی بکواس سے میں تنگ ہوں۔ اور سناؤ تم کیسی گزر رہی ہے؟

”اڑے، بس بہت مزے سے گزر رہا ہے، ہم بہت خوش ہے۔“

کیا خوش ہے؟ کیا ہے بے تیرے پاس؟ پانی میں برف ڈالتا نہیں ہے اور بولتا ہے خوش ہے۔

وہ پھر بہت زور سے ہنسا اور باہر نکل گیا۔ واپسی میں اس کے ہاتھ میں گنے کے رس سے بھرا ہوا گلاس تھا۔

”چلو بابو لوگ یہ پیو، ٹھنڈا ہے۔“

یہ کہاں سے لے آیا….؟

”اڑے، باہر خان بھائی بیچتا ہے ناں۔“

گلاس دھویا تھا یا ویسے ہی لے آیا گندے گلاس میں….؟

”اڑے پیو، زیادہ نخرا بند کرو۔ ادھر ہر چیز تم کو گندا لگتا ہے۔ تم لوگ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ خود کو دیکھو۔ تم بڑا صاف ہے۔ کوئی صاف کپڑا پہن کر صاف نہیں ہوجاتا۔ صاف کرنا ہے تو اپنا دل کو صاف کرو…..“ اس نے میرے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اپنی بکواس جاری رکھی۔

اچھا اچھا اپنا بھاشن بند کر تُو۔

”ہاں، تم لوگ کو ہم جیسا کوئی شیشہ دکھاوے تو بہت تکلیف ہوتا ہے۔ اڑے، یہی ہے تم لوگ کا شکل، شیشے میں دیکھو، اوپر سے اچھا، اندر سے کالا۔“

اور تم…؟

”اڑے، ہمارا کیا بات کرتا ہے، ہم اندر سے باہر سے کالا ہے۔ ہمارا سب کچھ کالا ہے۔ ہم کوئی لیکچر بازی تو نہیں کرتا ہے۔ بس جیسا ہے ویسا ہے۔ تم لوگ اندر کچھ باہر کچھ۔“ اچھا اچھا بند کر اپنی بکواس۔ اب میں چلتا ہوں۔

”کیدھر چلتا ہوں۔ ابھی بیٹھو، دو نوالہ روٹی کھاؤ، پھر جدھر غرق ہونا ہے، غرق ہوجاؤ۔“

اس نے میرے موڈ کا جنازہ نکال دیا تھا، میں خاموش رہا تو وہ بولا، ”اچھا یار، یہ تو بولوِ نی کہ تم کیسے آیا تھا، ابھی ادھر لیاری میں تو کوئی آتا نہیں ہے، ہم لوگ کو تو سارا ملک میں ایک منصوبے کے تحت بدنام کیا ہوا ہے، اور مزے کا سنو یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب جانتا ہے کہ کیوں ہوا، کیسے ہوا…؟“

بس ویسے ہی تجھ سے ملنے کو جی چاہا تو آگیا۔

”اڑے، آفرین ہے تم پر، کوئی کام وام نہیں تھا؟“

نہیں، کوئی کام نہیں تھا، بس ویسے ہی آگیا۔ میں اس سے ملنے نہیں گیا تھا، جس سے ملنے گیا تھا وہ گھر پر نہیں تھا۔ میں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے پہنچ گیا، وہ اکثر میرے کام آیا ہے۔

میں اور وہ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ بچپن سے ایسا ہی ہے۔ مطمئن، آسودہ، پڑھنے لکھنے میں جی نہیں لگتا تھا، بہت مشکل سے میٹرک کیا اور پھر اپنے کام میں جُت گیا۔ اس کے والد کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ ایک ٹرانسپورٹر ہیں، مجھ سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں اسے کہو انسان بن جائے۔ میں نے بہت دفعہ اس سے کہا کہ ابّا کا کہنا مان لے۔ کیوں ا پنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے لیکن وہ نہ مانا۔

ایک دن میں نے اسے بہت پریشان کیا تو کہنے لگا، ”تم میرے کو لکھ کر دیو کہ ہمارا باپ کا سارا کمائی حلال ہے، پھر ہم سوچیں گا۔“

وہ صبح سویرے اپنی گدھا گاڑی لے کر روزی کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور رات گئے گھر پہنچتا ہے۔

ایک دن شام پانچ بجے تھے اور میں لی مارکیٹ سے گزر رہا تھا کہ میں نے اسے گھر جاتے دیکھ لیا۔ موقع اچھا تھا میں نے اسے آواز دی۔

دادو، حرام خور، کام چور، اتنی جلدی گھر جارہا ہے۔

اس نے اپنی گدھا گاڑی روکی، نیچے اتر کر مجھ سے بغل گیر ہوکر بولا۔
”اڑے، چائے پیے گا؟“ لیکن میں نے ٹھان لی تھی کہ آج اسے بہت ذلیل کروں گا، بالآخر وہ بتانے لگا۔

”یار ایسا بات نہیں ہے، آج جلدی اس لیے گھر جارہا ہوں کہ وہ میرا جوڑی دار ہے ناں، مراد۔“

”ام دونوں ایک ہی جگہ گدھا گاڑی کھڑا کرتا ہوں۔ صبح سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے کام نہیں ملا۔ مجھے تو اتنے پیسے مل گئے ہیں کہ بس گزارہ ہو جائے گا، لیکن اگر میں بھی رات تک وہاں کھڑا رہتا تو اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا۔ بس میں نے گھر جانے کا سوچا اور چلا آیا۔ اب کم از کم وہ وہاں اکیلا ہے، کوئی دو چار روپیہ کما ہی لے گا۔“

میری آنکھیں اس دن بہت زور سے برسیں۔ گھر آتے آتے میری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ ہے وہ دادُو۔ یہ ہے انسان جو اپنے منہ کا نوالہ بھی دوسروں کو دے رہا ہے اور ہم دوسروں کے منہ کا نوالہ بھی چھین رہے ہیں۔ مجھے خود سے نفرت ہوگئی ہے۔

Comments

- Advertisement -