تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

ٹنکو میاں سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی تھی۔ ان کی شرارتیں بے ضرر تو تھیں، لیکن خود کو بہادر اور نڈر ثابت کرنے کی جو دُھن ٹنکو پر سوار رہتی تھی، اسے ایک قسم کی خامی شمار کیا جاسکتا تھا۔

جب بھی موقع ملتا وہ اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے میں‌ دیر نہ لگاتے۔ کبھی سننے میں آتا کہ ٹنکو میاں گلی کے کونے پر موجود برسوں سے بند پڑے مکان کی دیوار پھاند کر وہاں سے اپنی ٹیم کی گیند واپس لانے میں‌ کام یاب ہوگئے، تو کبھی کسی کسی آوارہ کُتّے کو ڈنڈا ہاتھ میں‌ تھام کر گلی بدر کرکے چھوڑا۔ چڑیا گھر گئے تو ہاتھی پر سواری کی، اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور اس بھاری بھرکم اور لمبی سونڈ والے جانور سے ڈرنے والے بچّوں کے لیے مثال بن گئے۔ بہن بھائیوں سے شرط لگائی کہ وہ رات کی تاریکی میں چھت پر تنہا کچھ وقت گزار سکتے ہیں اور ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد اگلے تین چار دن ٹنکو میاں گھر میں‌ فخر سے سینہ پُھلا کر گھومتے رہے۔ یہ چھوٹی عمر میں‌ ان کے بڑے کارنامے تھے۔

اپنے ہم جماعتوں اور محلّے کے دوستوں‌ میں وہ ٹنکو بہادر مشہور ہوگئے تھے۔ یہ ایسی باتیں نہ تھیں کہ کوئی اعتراض کرتا یا ٹنکو میاں کو شرارتی کہا جاتا۔ لیکن ان کی ایک عادت بہت بُری تھی۔ سڑک عبور کرنے کے دوران بھی وہ اپنی دلیری اور پھرتی کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھتے تھے اور یہ خطرناک بات تھی، کیوں‌ کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے۔ ان کی ناسمجھی اور ذرا سی کوتاہی انھیں کسی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی تھی۔

صبح اسکول جاتے ہوئے اور وہاں سے واپسی پر دوسرے بچّے راستے میں پڑنے والی سڑک عبور کرنے کے لیے ٹریفک کے رکنے کا انتطار کرتے، اور کسی مقام پر اگر بالائی گزر گاہ یا ٹریفک سگنل کی سہولت نہ ہونے کے سبب انھیں سڑک عبور کرنا دشوار لگتا تو وہاں سے گزرنے والے کسی بڑے کی مدد لے لیتے تھے، لیکن ٹنکو میاں عجیب حرکت کرتے۔ وہ بالائی گزر گاہ کو استعمال کرنے کے بجائے سڑک پر ایک نظر ڈالتے، گاڑیوں کی تعداد اور رفتار کا اندازہ کرتے اور موقع پاتے ہی دوڑ پڑتے۔ کبھی سڑک خالی ہوتی یا کم از کم انھیں نکلنے کی جگہ ضرور مل جاتی تھی، لیکن اکثر یہ بھی ہوا کہ ان کی وجہ سے کسی ڈرائیور کو فوری بریک لگانا پڑا اور ٹائروں چرچرانے کی آوازوں نے سب کو متوجہ کر لیا۔ ڈرائیور غصّے میں ٹنکو میاں کو بُرا بھلا کہتے، آگے بڑھ گیا۔ راہ گیر ان کی یہ حرکت دیکھتے تو کوئی انھیں سمجھاتا، اور کچھ ڈانٹ بھی دیتے، مگر ٹنکو میاں نے اپنی عادت ترک نہیں‌ کی تھی۔

کچھ عرصے سے وہ اپنے چند دوستوں کی طرح سائیکل چلانے کا شوق بھی پورا کر رہے تھے، لیکن جیب خرچ سے بچت کر کے۔ اب وہ چاہتے تھے کہ ایک عدد سائیکل کے مالک بن جائیں۔ یہ بات اپنے ابّا جان سے کہنا ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا، مگر امّاں‌ سے سائیکل کے لیے ضد کرنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ ٹالتیں‌ تو ان کے سامنے رونے بیٹھ جاتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، سائیکل کیسے دلاؤں؟

”امّاں میں پڑھائی پر پوری توجہ دوں گا۔ صرف شام کے وقت سائیکل لے کر باہر نکلوں گا اور سچّی میں کسی کے ساتھ ریس نہیں لگاﺅں گا۔“ آج پھر ٹنکو میاں‌ ضد کررہے تھے۔ ماں تو ماں‌ ہوتی ہے۔ وہ کئی دنوں سے سوچ رہی تھیں کہ کسی طرح اپنے بیٹے کی فرمائش پوری کردیں۔ اس روز انہوں نے ٹنکو سے وعدہ کیاکہ وہ ماہانہ بچت کرکے انہیں جلد ہی سائیکل دلا دیں گی۔ لیکن انھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ ٹنکو میاں یہ جان بہت خوش ہوئے، اور بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار شروع کردیا جب وہ ایک چمکتی ہوئی سائیکل کے مالک بن جاتے۔ ‌

وہ ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب ٹنکو میاں اپنے پڑوسی اور ہم مکتب بچّوں کے ساتھ اسکول سے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ‌راستے میں سڑک پڑتی تھی جسے عبور کرنے کے لیے وہاں ایک پُل بنایا گیا تھا۔ ‌حسبِ معمول بچّے اس پُل کی طرف بڑھ گئے تاکہ باحفاظت سڑک عبور کرسکیں، لیکن ٹنکو میاں نے آج ان کا ساتھ نہ دیا۔ ‌وہ ہر دوسرے تیسرے روز ایسا ہی کرتے تھے۔ ‌آج بھی انھوں نے ایک نظر میں سڑک کا جائزہ لیا اور دوڑ لگا دی۔ یکایک فضا میں عجیب سی آوازیں ابھریں جیسے کوئی گھسٹتا ہوا جارہا ہے اور پھر ایسا لگا جیسے کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی ہیں۔ لمحوں میں‌ منظر تبدیل ہو گیا اور سڑک سے گزرنے والے اور قریبی دکان دار اس طرف دوڑے جہاں ایک موٹر سائیکل سوار بڑی سی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد زمین پر گرا ہوا تھا۔ یہ حادثہ ٹنکو میاں کے غلط طریقے سے سڑک عبور کرنے کی وجہ سے پیش آیا تھا جو پلٹ کر یہ سب دیکھ چکے تھے اور گھر کی طرف دوڑ لگانے میں ذرا دیر نہ کی تھی۔

ٹنکو میاں گھر پہنچے اور ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ وہ خوف زدہ تو بہت تھے کہ آج ان کی اس حرکت کی وجہ سے ایک بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں‌ کریں‌ گے۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر انھیں‌ امّاں کی آواز سنائی دی۔

” کیا ہوا عادل میرے بچّے، یہ چوٹیں کیسے آئیں، کسی سے جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟ “
امّاں، میں ٹھیک ہوں، معمولی ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا، یہ چوٹیں گرنے کی وجہ سے لگی ہیں۔ ٹنکو کو اپنے بھائی عادل کی آواز سنائی دی جو درد کے احساس کے ساتھ اپنی ایک پریشانی کا ذکر کچھ یوں کررہا تھا۔ ”امّاں آپ اسے چھوڑیں، میری ہڈی جوڑ سلامت ہیں، لیکن مجھے پانچ ہزار روپے لا کر دیں۔ دراصل ایک بچّہ غلط طریقے سے سڑک عبور کر رہا تھا، اسے بچاتے ہوئے میری موٹر سائیکل وہاں کھڑی ایک قیمتی کار سے ٹکرا گئی، اُس کا مالک بااثر آدمی ہے، مجھے اس کا نقصان پورا کرنا ہو گا۔“ بھائی کی بات سن کر ٹنکو میاں اپنی جگہ دبک گئے۔ وہی تو تھے جسے بچاتے ہوئے عادل حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اسے خوش قسمتی کہیے یا اتفاق کہ عادل اُس بچّے کو نہیں دیکھ سکا، جس کی غلط حرکت نے اس کی جان خطرے میں‌ ڈال دی تھی۔

”بیٹا، میں کہاں سے لاؤں اتنے سارے پیسے، تمہیں تو معلوم ہے۔۔۔۔ ارے یاد آیا، تم رُکو میں ابھی آتی ہوں۔“ امّاں کمرے میں گھس گئیں۔

”یہ لو عادل، پہلے ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور پھر اُس آدمی کو یہ رقم دے کر اپنی جان چھڑاؤ، یہ پیسے میں نے تمہارے بھائی کو نئی سائیکل دلانے کے لیے جوڑے تھے۔ چند دنوں میں اُسے تمہارے ساتھ بازار بھیجنا ہی تھا تاکہ اس کی پسند سے سائیکل خرید کر لے آؤ۔ خیر، خدا کی یہی مرضی تھی۔“

اُف خدایا! امّاں کی بات سن کر ٹنکو کا سَر چکرانے لگا تھا۔ اس نے اپنی ایک بُری حرکت کی وجہ سے زبردست نقصان اٹھایا تھا۔

(مصنّف: عارف عزیز)

Comments

- Advertisement -