کہتے ہیں کسی ملک کا بادشاہ اپنے ایک ملازم سے ناراض ہوگیا بادشاہ نے ملازم کو دربار سے نکال دیا اور حکم دیا کہ تم دن رات اپنے گھر میں رہو، کہیں باہر نہ نکلنا اور کوئی کام بھی مت کرنا۔
یہ بظاہر کوئی کڑی سزا تھی اور نہ ہی ایسی قید جس میں اس ملازم کو تکلیف ہوتی۔ اسے تو اپنے ہی گھر میں رہنا تھا۔ لیکن اس حالت میں چند ماہ گزارنے کے بعد وہ گھبرا گیا۔ ایک آدمی ایک ہی جگہ اور مخصوص لوگوں کے درمیان کب تک رہے؟ اسے وحشت ہونے لگی۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوگیا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کا وہ ملازم بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔
جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کے دربار میں کوئی بڑا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیر، امراء اور نوابوں کو دربار میں دعوت دی گئی ہے۔ ملازم جس کا نام سردار تھا، اس کو ایک ترکیب سوجھی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔ درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے، وہ پہچان نہ پائے اور سردار بڑے ادب سے دربار میں دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا۔ تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اس کے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے چنے گئے۔ سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپا لی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے سب سے نظر بچا کر گھر پہنچ گیا۔ گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔
اس نے اپنی بیوی کو وہ سونے کی رکابی دی اور وہ اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بازار جاتی اور جوہری کو فروخت کر کے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کہ سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے لگے۔ بادشاہ کے کان میں یہ بات پہنچی۔ اس نے ان کی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ خیر، ایک سال بیت گیا۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھر گیا۔ جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔
دربار ختم ہوا تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔ بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹپٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟ یہ سنتے ہی سزا یافتہ ملازم کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔ آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا ”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔ کئی مہینوں تک پریشان اور تنگ دست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔
بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کر دی۔ غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگ دستی سے مجبور ہو کر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔
غلطی تو بادشاہ اور اس ملازم دونوں کی تھی۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ بادشاہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور ملازم کو ایسی سزا دینے پر شرمندہ ہوا جس نے اسے تنگ دستی اور آزمائش میں ڈالا۔