ایک بادشاہ دریا کی سیر کو نکلا تو اس غلام کو بھی ساتھ لے لیا جو چند دن پہلے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ کشتی دریا میں آگے بڑھی تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔
بادشاہ کا ایک وزیر اور دوسرے نوکر جو اس کے ساتھ تھے، وہ اسے نرمی کے ساتھ سمجھانے لگے اور ہر طرح اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں ہوتا اور وہ نہیں ڈوبا۔ لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کرائیں۔ اس کشتی میں ایک دانا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔
اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے، اس دانا کے اشارے پر اس کے بال پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ کر کشتی کے پتوار سے باندھ دیا۔ کچھ وقت گزر گیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا، بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب سے پہلے اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی، دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔