تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

وہ تینوں اس وقت جزیرہ ماہی پر واقع ٹاؤن وکٹوریہ میں کھڑے تھے، سیچلز میں تقریباً ایک سو پندرہ جزیرے موجود ہیں۔ دانیال کو ریت عجیب سی لگی، اس نے مٹھی میں ریت بھری اور پھر اسے انگلیوں کے درمیان میں سے پھسلنے دیا۔ جبران نے ریت پر نگاہ ڈالی تو اسے اس میں ہلکا گلابی رنگ نظر آیا۔ فیونا نے کہا کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہاں رنگوں کے ہزاروں شیڈز پائے جاتے ہیں۔

جبران نے فیونا سے پوچھا کہ یہاں انھوں نے کون سا پتھر ڈھونڈ نکالنا ہے، فیونا نے جواب دیا: ’’موتی … اور کیا تم دونوں نے محسوس کیا کہ ہم ایک اور جزیرے پر ہیں، آخر جزیرے ہی پر کیوں؟ کیا کنگ کیگان نے انھیں کہا تھا کہ ہر پتھر ایک جزیرے ہی پر چھپایا جائے؟‘‘

دانیال نے سوچ کر کہا: ’’جزائر عام طور سے دور دراز مضافاتی علاقوں میں ہوتے ہیں، شاید اس لیے، جیسا کہ ہائیڈرا ایک دور مضافاتی علاقہ تھا، آئس لینڈ بھی، اور اب یہ سیچلز۔ میں نے تو ان کے نام بھی نہیں سنے تھے۔‘‘

جبران نے اس کے کپڑوں کی طرف دیکھ کر کہا جو اتنی دیر میں بالکل سوکھ گئے تھے: ’’تمھیں بالوں میں کنگھی کرنی چاہیے، بال ایسے ہوئے ہیں جیسے رسیاں ہوں یا سانپ، ہائیڈرا کے عفریت کی طرح۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’ویسے آج کل جزائر مضافاتی نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ہم کہیں بھی چند گھنٹوں میں اڑ کر وہاں جا سکتے ہیں۔‘‘

’’اور ہم تو ایک منتر پڑھ کر چند ہی سیکنڈ میں یہاں پہنچے۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن دانی کی بات درست لگتی ہے، جونی اور جمی کے دور میں یہ جزائر واقعی دور دراز علاقوں میں واقع الگ تھلگ واقع تھے اور ان تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔‘‘

فیونا نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر کہا: ’’آئس لینڈ سے واپسی پر میں نے انکل اینگس کو رقم واپس نہیں کی تھی، اس لیے یہ میرے پاس موجود ہے، اب ہمیں پھر سب سے پہلے بینک تلاش کرنا ہے، پتا نہیں یہاں برطانوی کرنسی چلے گی یا نہیں؟‘‘

تینوں وکٹوریہ ٹاؤن میں گھومنے لگے، وہاں دکانیں بے حد شان دار تھیں۔ انھیں ایک بینک نظر آیا تو فیونا انھیں چھوڑ کر اندر چلی گئی لیکن ذرا ہی دیر بعد پریشانی کے عالم میں واپس آ گئی۔ ’’انھوں نے مجھے کرنسی تبدیل کر کے نہیں دی، کہہ رہے ہیں کہ پاسپورٹ کے بغیر تبدیل نہیں کریں گے۔‘‘

جبران نے کہا: ’’تو کسی اور بینک میں کوشش کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے ایک اور بینک تلاش کیا، فیونا اندر گئی اور کچھ دیر بعد چہرے پر مایوسی طاری کیے واپس آ گئی۔ ان دونوں کے چہرے بھی اتر گئے، لیکن فیونا اچانک چہک اٹھی: ’’پریشان مت ہو، اب کہ بار میں کامیاب ہو گئی ہوں، یہاں سیچلز روپے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہیں لیکن وہ اس وقت سمندر میں نہانے چلے گئے ہیں اور ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے میری بات سن کر کوئی سوال نہیں کیا۔‘‘

جب انھیں معلوم ہوا کہ بحر ہند کے مغربی حصے میں واقع سیچلز پر ایک سو پندرہ جزیرے ہیں تو انھیں حیرانی ہوئی، جلد ہی انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان میں سے زیادہ ایسے جزائر ہیں جو مونگے کی چٹانوں اور دیگر چیزوں سے بنے ہیں، یعنی اصل جزیرے نہیں ہیں۔ فیونا نے کہا کہ چلو اب کوئی ہوٹل دیکھتے ہیں، لیکن جبران نے کہا: ’’ہم ہر بار ہوٹل میں کمرہ ہی کیوں لیتے ہیں، ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے، کیوں نہ ہم ابھی سے موتی ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

دانیال اس بات پر اچھل پڑا: ’’کیا ہو گیا ہے تمھیں جبران! اگر ہمیں ابھی فوراً موتی نہیں ملا اور ہمیں بہت دیر ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا تم یہاں ساحل پر لمبی تان کر سو جاؤ گے؟‘‘

دانیال درست کہہ رہا تھا، فیونا نے اس کی تائید کی اور کہا: ’’آئس لینڈ میں ہم نے کمرہ حاصل کیا تھا جو ہمارے بہت کام آیا تھا، ہائیڈرا میں نہیں لیا لیکن یہاں ہمیں کسی کمرے کی ضرورت ہے، میں نہانا بھی چاہتی ہوں، اور آرام کی بھی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔ اگر یہاں سو سے زائد جزیرے ہیں تو میں شرط لگا سکتی ہوں کہ موتی اس والے جزیرے پر تو بالکل نہیں ہے۔‘‘

انھیں پیاس لگی تو وہ ہوٹل کی تلاش چھوڑ کر ایک کھلی کیفے میں جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے ویٹر کو لیموں کے شربت کا آرڈر دیا، تو وہ کچھ دیر میں شیشے کی ایک صراحی کے ساتھ آ گیا، جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں لیمو، مالٹے اور گلاب کے کٹے پتے تیر رہے تھے۔ جبران نے لیموں کے رس سے گھونٹ بھرا اور تعریف کی۔ انھیں شربت بہت مزے دار لگا۔ شربت پینے کے بعد انھوں نے میز پر بل رکھا اور ساتھ میں ٹپ بھی، اور پھر نکل کر ہوٹل کی تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی انھیں ہوٹل کا سائن بورڈ دکھائی دیا جس پر لکھا تھا: ’’سی سائیڈ فینٹیسی!‘‘

(جاری ہے…)

Comments

- Advertisement -