تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ستتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

’’ارے فیونا، یہ دیکھو، دروازے میں یہ دعوت نامہ پڑا ملا۔‘‘ مائری بولیں، فیونا اس وقت ناشتہ کر رہی تھی، اس نے پوچھ لیا کہ کیسا دعوت نامہ۔ مائری نے کہا: ’’یہ تو جبران کی امی شاہانہ کی طرف سے ہے، انھوں نے ہمارے اعزاز میں ٹی پارٹی دی ہے دوپہر کو۔‘‘ وہ ایک لمحہ کو ٹھہریں اور پھر بولنے لگیں: ’’اسکول میں ویسے بھی ہاف ڈے ہے، واپسی پر دیر مت کرنا، میں تمھارے بہترین کپڑے نکال کر رکھ دوں گی، میں بھی کام سے جلدی آ جاؤں گی۔‘‘
فیونا نے ناشتہ مکمل کر لیا تو کتابیں بیگ میں ڈال کر اسکول کے لیے چل دی۔
۔۔۔۔

دوسری طرف جب جونی جبران کے گھر پہنچا تو وہ اور اس کے والد بلال گھر سے نکل چکے تھے، شاہانہ نے کہا کہ آج جونی برادرز کو تھوڑا سا وقت کہیں اور بِتانا پڑے گا کیوں کہ یہ خواتین کی پارٹی ہے۔

جونی وہاں سے اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، جب کہ شاہانہ کافی دیر تک کھانے کی چیزیں تیار کرتی رہیں۔ گوٹا کناری والے میز پوش نکال کر گول میزوں پر بچھائے اور باغیچے سے تازہ پھول توڑ کر گل دانوں میں سجائے اور پھر باقی انتظامات کرنے لگ گئیں۔
۔۔۔۔

اسکول سے واپسی پر فیونا نے اپنا پسندیدہ، سفید رنگ کا لباس پہنا، جس پر بینگنی رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑھے گئے تھے، اور گلے اور کناروں پر زیتون کے سبز پتے بنے ہوئے تھے۔ فیونا کو بستر پر سفید دستانے اور ایک ٹوپی بھی دکھائی دی، وہ فوراً بولی: ’’اوہ ممی، میں ہیٹ نہیں پہنوں گی۔‘‘

مائری نے آنکھیں گھما کر کہا: ’’فیونا… سمجھا کرو… یہ ٹی پارٹی ہے۔ دستانے اور ہیٹ پہن لو، میں بھی تو پہن رہی ہوں۔‘‘

فیونا نے ہیٹ اٹھا کر سر پر رکھا اور آئینے میں خود کو دیکھا، پھر منھ بنا کر بولی: ’’دیکھو کتنا برا لگ رہا ہے، احمق لگ رہی ہوں۔‘‘
۔۔۔۔

جونی اینگس کے گھر پہنچا تو وہاں جمی اور جیزے پہلے ہی سے موجود تھے۔ اینگس بولے: ’’آپ کے بھائیوں نے مجھے آپ کی جنم بھومی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ جونی چونکا: ’’اوہ، تو آپ سب جان گئے ہیں، اچھی بات ہے، لیکن میں یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتا، مائری کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘ اینگس نے کہا کیا آپ قدیم کتاب دیکھنا چاہیں گے اور یہ کہہ کر انھوں نے دراز سے کتاب نکال لی۔ ’’یہ رہی وہ کتاب جو صدیوں پہلے آپ ہی نے لکھی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ کو پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔‘‘

جونی نے کتاب ہاتھوں میں جیسے ہی لی، اس کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا۔ اس کا چہرہ جوش اور مسرت سے تمتمانے لگا تھا، اور بولتے وقت آواز بھی جذبات سے لرزنے لگی: ’’یہ … یہ … میری کتاب … اوہ … یہ آج بھی سلامت ہے … اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی… حیرت انگیز!‘‘

وہ کتاب لے کر جلدی سے بیٹھ گیا اور ایک ایک ورق الٹ کر دیکھنے لگا۔ ’’مجھے اب بھی یاد ہے جب میں اسے لکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہو۔‘‘ وہ صدیوں پرانی یادوں میں کھو گیا تھا کہ اچانک اسے اینگس کی آواز نے چونکایا۔

’’آپ نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کتاب کا ایک حصہ آپ نے فونیزی اور عربی زبانوں میں لکھا ہے اور پھر اسکاٹ لینڈ آمد کے بعد گیلک میں لکھنے لگے، یہ ایک ملغوبا بن گیا ہے۔‘‘

جونی یعنی آلرائے کیتھمور مسکرا دیا اور بولا: ’’میں دراصل بہت تیزی سے زبانیں سیکھنے لگتا ہوں۔ ہمارا ایک ملازم ایک مقامی دیہاتی تھا جس کا نام بروس تھا۔ جب وہ اپنا کام ختم کرتا تھا تو میں اسے لے کر اپنے کمرے میں آ جاتا اور پھر اس سے میں گیلک زبان سیکھتا۔ وہ بہت شان دار آدمی تھا، مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔‘‘

باقی لوگوں نے اسے قدیم کتاب اور اس سے وابستہ یادوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا اور اینگس کے ساتھ باہر نکل کر ایک قدیم شاہ بلوط کی شاخوں کے نیچے کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔

(جاری ہے…)

Comments

- Advertisement -