نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
"نقشہ بتا رہا ہے کہ ہائیڈرا 21 قطر میل تک پھیلا ہوا ہے، اور ایتھنر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اتنے بڑے علاقے میں کسی قیمتی پتھر کو ڈھونڈ نکالنا تو ناممکن ہے۔ ویسے ہم یہاں کون سا پتھر ڈھونڈیں گے؟” جبران نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
"سیاہ آبسیڈین۔ انکل اینگس نے بتایا تھا کہ یہ سیاہ شیشے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔” فیونا نے جواب دیا۔ "صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ پتھر کسی آتش فشاں سے ملا تھا۔”
وہ اندر گئے اور ایک نقشہ خرید لیا۔ باہر آ کر وہ ایک پتھر کی دیوار پر چڑھ کر اس طرح بیٹھ گئے جیسے گدھے پر سواری کی جاتی ہے۔ یہ دیوار ساحل پر تھی۔ لہریں ان کے پیروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ماہی گیروں سے بھری ایک کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی۔ ان سے کافی فاصلے پر سیاحوں سے بھری کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی تھی اور اس میں سے نکل کر مخصوص لباس پہنے سیاح چھلانگیں مار کر ساحل دوڑ رہے تھے۔ ان کا رخ دکانوں کی طرف تھا۔
"یہاں بھی ویسے ہی سیاح نظر آ رہے ہیں جیسے گیل ٹے میں نظر آیا کرتے ہیں۔” فیونا بولی۔ "شکلوں سے ویسے ہی احمق دکھائی دیتے ہیں۔” تینوں ہنسنے لگے۔ اچانک فیونا کو ایک خیال آیا۔ "کیا ہائیڈرا ایک عفریت کا نام نہیں ہے، جس کے سانپ جیسے نو سر ہیں!”
"ہاں… ہائیڈرا ایک عفریت ہے۔” جبران نے اثبات میں سر ہلایا۔ "یونانی تاریخ کا تمھارا مطالعہ اچھا ہے۔”
ایسے میں دانیال بھی بول اٹھا۔ "میں نے ہرکولیس کی کہانی پڑھی ہے، اس نے ہائیڈرا کو مار دیا تھا۔ وہ بھی تو یونانی تھا نا!”
فیونا نے کہا: "کیا ہم یہیں پر رہیں گے، اگرچہ یہ جگہ بہت خوب صورت ہے، اور مجھے پسند بھی آ گئی ہے، لیکن ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔”
"پہلے کچھ کھا نہ لیا جائے کیا؟ مجھے بھوک لگی ہے۔” جبران بولا، فیونا نے کہا: "ہاں، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور اس نقشے کا کیا کریں؟”
"کھانے کے بعد دیکھیں گے اسے، مجھے یونانی کھانوں کی خوش بو بہت اچھی لگی ہے۔” جبران ایک آؤٹ ڈور کیفے کی طرف دیکھنے لگا جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں انھیں ایک میز خالی نظر آ گئی، تینوں نے جلدی سے وہاں جا کر کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ "اف، کرسی تو بہت گرم ہے۔” فیونا ایک دم اچھل کر پڑی۔
"ہاں، کرسیاں دھات کی بنی ہیں، دھوپ کی وجہ سے تَپ رہی ہیں۔” جبران مسکرا کر بولا۔ ایسے میں ایک بیرے نے آکر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ان سے پوچھا: "کیا چاہیے آپ کو؟”
"کیا آپ مینو دیں گے؟” جبران نے اس کی طرف دیکھا۔ بیرا ایک مینو میز پر رکھ کر چلا گیا۔ جبران اور فیونا کھانوں کی فہرست دیکھنے لگے۔ "ایک اور مشکل…. ہمیں کھانوں کی نوعیت کے بارے میں کیسے پتا چلے گا؟ یہ سارے نام تو ظاہر ہے اجنبی ہیں۔” جبران نے دونوں کی طرف دیکھا۔
"کچے آکٹوپس… او… میں تو یہ نہیں کھا سکتی۔” فیونا نے مینو دیکھ کر برا سامنھ بنا لیا۔
بیرا واپس آ گیا۔ اس نے کان کے پیچھے سے پنسل نکالی۔ فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ دیکھ کر کہا: "کرسٹوف! میں یونانی سلاد کھاؤں گی۔ مینو میں لکھا گیا ہے کہ اس میں زیتون، کاہو، کھیرا، ٹماٹر اور مسالہ لگا پنیر شامل ہیں، کیا یہ درست ہے؟”
بیرے نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: "جی ہاں، اس پنیر کو ہماری زبان میں فیٹا کہتے ہیں اور سلاد میں تیل اور سرکہ بھی ڈالے جاتے ہیں۔” بیرے نے یہ کہہ کر جبران کی طرف توجہ کی۔ "جی، آپ کے لیے کیا لاؤں؟”
"صبر تو کریں۔ ابھی میرا آرڈر ختم نہیں ہوا۔” فیونا نے جلدی سے مداخلت کی۔ بیرا پھر اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے کہا: "ایک ڈبل روٹی بھی۔”
"یہ عام ڈبل روٹی نہیں ہے، اس کا نام پیٹا ہے جو خمیر کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔” بیرے نے بدمزگی سے کہا اور جبران کی طرف مڑا، جو بدستور مینو پر نگاہیں دوڑا رہا تھا۔ بیرا بے صبری سے زمین پر پاؤں تھپتھپانے لگا۔ "میں ایک سولاکی لوں گا۔ مجھے برّے کا گوشت بے حد پسند ہے، اس کے ساتھ سیخ میں مرچ اور پیاز بھی پروئے جاتے ہیں، لیکن مرچ کون سی؟” جبران نے پوچھ تو لیا لیکن ایک دم سے گھبرا گیا کہ پتا نہیں بیرا کس طرح جواب دے، کیوں کہ اس کا رویہ کچھ اچھا نہیں تھا۔ وہی ہوا۔ وہ غّرا کر بولا: "ہری مرچ… تم کیا سمجھ رہے ہو؟” اگلے لمحے جبران نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا "بے وقوف سیاح!”
"میں تو یوں ہی پوچھ رہا تھا، کیوں کہ گھر میں ہمارے پاس زرد، نارنجی اور سرخ مرچ بھی ہیں۔” جبران نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"مجھے یہ زیٹنر کی چٹنی چاہیے جو ملائی، دہی، کھیرے اور لہسن سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ فرائی زکینی، فرنچ فرائز اور بینگن۔ ویسے یہ زکینی ہے کیا؟”اس سے قبل کہ بیرا دانیال سے آرڈر پوچھتا، اس نے جلدی جلدی الٹا سیدھا خود ہی بتا دیا۔
"زکینی کھیرے کی طرح سبزی ہے۔” بیرے نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ "اور ہاں ایک گلاس پانی بھی۔” دانیال جلدی سے بولا۔
"میرے لیے بھی۔” فیونا نے بھی کہا۔ "کیا پانی کی قیمت الگ سے وصول کی جاتی ہے؟”
بیرے نے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا اور جبران کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے بھی پانی کا آرڈر دے دیا۔ اس کے جاتے ہی فیونا نے گہری سانس لے کر کہا: "میرے خیال میں سارے ہی یونانی اس بیرے کی طرح تو نہیں ہوں گے۔”
جبران نے نیا نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا: "ایسا نہیں ہے۔ وہاں بھی جب انکل مک گریگر کے ریستوران میں سیاحوں سے بھری بس اترتی ہے تو ان کا رویہ بھی پھر ویسا نہیں رہتا، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا کرتا ہے۔”
کچھ ہی دیر بعد بیرا پلیٹوں میں ان کی مطلوبہ ڈشیں لے کر آ گیا۔ فیونا نے زیتون دیکھے تو حیران رہ گئی۔ پھر اس نے کانٹے میں ایک زیتون اٹھا کر منھ میں رکھا تو بے اختیار بولی: "اف… یہ تو بے حد ذائقہ دار ہے، ہمارے ہاں ڈبّے میں بند جو زیتون ملتا ہے، اس کا ذائقہ اتنا مزے دار نہیں ہوتا۔”
تینوں نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ فیونا آخر میں بولی: "میں اس بیرے کو ٹپ نہیں دوں گی، یہ ٹپ کا مستحق نہیں ہے۔”
"چلو، اس نقشے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔” جبران نے نقشہ نکال کر میز پر پھیلا دیا۔ "یہ تو بہت پیچیدہ لگ رہا ہے۔ کیا ہم اسے پڑھنے کی کوشش کریں یا پھر پہلے ذرا پرسکون ہونے کے لیے گدھے کی سواری کریں؟”
"ہاں، یہ صحیح ہے۔” دانیال بولا لیکن فیونا نے منع کر دیا۔ ان کی یہ گفتگو گدھے کے مالک نے سن لی۔ وہ گدھے کو قریب لا کر بولا: "بچو، آؤ، گدھے کی پُر لطف سواری کا مزا لو۔ بچوں کی سواری پر گدھا بہت خوش ہوتا ہے۔”
فیونا نے سواری سے انکار کر دیا۔ جبران اور دانیال نے گدھے پر سواری کی اور تصویریں بھی بنوائیں۔
"چلو، اب یہ کھیل ختم کرو۔ ہم یہاں سیاح بن کر تو نہیں آئے۔ ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔” فیونا نے تصویروں کو دیکھا اور مسکرا دی۔
(جاری ہے…….)