تازہ ترین

زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

مشاہیرِ ادب کے خطوط کی فہرست طویل ہے جو ہمارے لیے یادوں کا خزانہ اور علم و ادب کے اعتبار سے بہت مستند حوالہ ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں۔ یہاں ہم پاکستان کے ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک خط نقل کررہے ہیں جو انھوں نے معروف شاعر اور مصنّف ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام تحریر کیا تھا۔

برادرم خورشید رضوی صاحب
السلام علیکم!

خط ملا، بے حد ممنون ہوں۔ آپ سے ملے تو جیسے صدیاں گزر گئیں۔ اس دوران میں کم از کم تین بار صرف آپ سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج گیا، لیکن آپ کے کمرے کے باہر ایک اتنا بڑا زنگ آلود تالا پڑا دیکھا۔ نہ جانے یہ تالا آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ خاصا مضبوط لگتا ہے مگر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اسے دیکھ کر آپ کے دوستوں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔

خدارا اس ڈینو سار سے پیچھا چھڑائیں اور دروازے پر کوئی نرم و نازک جندری آویزاں کریں جس کی کلائی پروفیسر غلام جیلانی اصغر باآسانی مروڑ سکیں۔ اس کا فائدہ کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ آپ کے دوست آپ کی عدم موجودگی میں کمرے کے اندر جا کر آپ کی خوشبو سے معانقہ کر سکیں گے۔

غلام جیلانی اصغر اور میرا یہ تاثر ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے رشید قیصرانی، جمیل یوسف اور نصف درجن دوسرے دوستوں کو چھوڑ کر، آپ سب سے زیادہ ”بے وفا“ ہیں کہ کبھی ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔

آپ نے صوفی محمد ضیاء الحق صاحب کا پوچھا ہے تو میری یادداشت نے ایک زقند بھری ہے اور میری نظروں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا ہے جب میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جھنگ کا طالب علم تھا اور صوفی محمد ضیاء الحق ہمیں پڑھاتے تھے۔ غالباً رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ دبلے پتلے، مرنجاں مرنج، مجسم شرافت تھے۔ دھیمی آواز میں بولتے مگر ان کا ہر لفظ شفقت اور محبت سے لبریز ہوتا۔

اس زمانے کے ایک اور استاد بھی مجھے یاد ہیں۔ ان کا نام خواجہ معراج الدین تھا۔ بڑے دبنگ آدمی تھے۔ مسلمان طلبہ کے لیے کالج کی سطح پر جنگیں لڑتے تھے جب کہ صوفی ضیاءالحق کسی بکھیڑے میں نہیں پڑے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھے سب طلبہ کے لیے جیسے ایک چشمے کی طرح رواں دواں رہتے۔

میں عربی کا طالبِ علم نہیں تھا۔ فارسی پڑھتا تھا جو خواجہ معراج الدین ہمیں پڑھاتے تھے۔ البتہ میں نے اُردو اختیاری لے رکھا تھا اور یہ ہمیں صوفی صاحب پڑھاتے تھے۔ اب میں کیا عرض کروں، اُردو کے ثقیل سے ثقیل الفاظ بھی ان کے ہونٹوں سے چھوتے ہی سبک بار اور شیریں ہو جاتے۔ میں کالج میگزین کا ایڈیٹر تھا اور اُردو میں تقریریں کرنے کا بھی مجھے شوق تھا، لہٰذا مجھ پر بہت مہربان تھے۔ یوں تو دو سال جو میں نے کالج میں گزارے ضیاء صاحب سے اکتسابِ نور میں بسر ہوئے مگر مجھے ان کا ایک جملہ آج تک نہیں بھولا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جملے کا میری آئندہ ادبی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔

بعض اوقات ایک معمولی سا اشارہ سائکی کے اندر جا کر ایک بیج کی طرح جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پھر جب حالات سازگار ہوں تو ایک انکھوے کی طرح پھوٹ نکلتا ہے۔ یہی قصہ اس جملے کا ہے۔ ایک روز باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگے۔ دیکھو وزیر علی! (ان دنوں میں وزیر علی خان تھا) مجھے یقین ہے ایک دن تم کتابیں لکھو گے۔ یاد رکھو! کتاب سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب ہی کے ذریعے اپنی مخلوق سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بس ان کا یہ، جملہ ایک اشارہ یا suggestion بن کر میرے اندر اتر گیا اور پھر اس کے جو نتائج (اچھے یا برے) نکلے وہ آپ کے سامنے ہیں۔

خدا کرے آپ بخیر و عافیت ہوں، کبھی سرگودھا آنے کا بھی سوچیے۔

والسلام
آپ کا، وزیر آغا
3 فروری 1993

Comments

- Advertisement -