’’محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسّی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے۔“ صدیقی صاحب مرحوم (ابوالفضل صدیقی) نے فوراً ٹوکا کہ اُس کو رسّی نہیں ”الگنی“ بولتے ہیں۔
پھر جمیل بھائی سے مخاطب ہو کر بولے رسّی کو بہ لحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لیے چھوڑا جاتا تو اِس ڈر سے کہ وہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ اُس کی اگلی ٹانگوں میں رسّی باندھ دیتے ہیں۔ اُس کو ”دھنگنا“ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ”اگاڑی“ ”پچھاڑی“ کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر جو رسّی سوار پکڑتا ہے وہ ”لگام“ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے اگر ٹم ٹم، بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسّی ”راس“ کہلاتی ہے۔
اسی لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لیے جو رسید لکھی جاتی تھی، اُس میں یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ”یک راس گھوڑے کی قیمت“ اور ہاتھی کے لیے ”یک زنجیر ہاتھی“ استعمال ہوتا تھا۔
گھوڑے کو جب ٹریننگ کے لیے سائیس پھراتا ہے اور جسے ”کاوا پھرانا“ بولتے ہیں، اُس رسّی کو جو سائیس اُس وقت پکڑتا ہے اس کو ”باگ ڈور“ کہتے ہیں۔
پھر مرحوم نے کہا بیل کی ناک کے نتھنوں میں جو رسّی ڈالتے ہیں اُس کو ”ناتھ“ (اسی لیے ایسے بیل کو ”نتھا“ ہوا بیل بولتے ہیں، اُس کے بعد ہی بیل رہیلو اور ہل وغیرہ کے کام میں آتا ہے) کہتے ہیں اور اونٹ کی ناک میں ”نکیل۔“ کنویں سے بڑے ڈول کی جو بیل کھینچتے ہیں اُس میں جو موٹا رسّا استعمال ہوتا ہے اُس کو ”برت“ یا ”برتھ“ بولتے ہیں۔‘‘
(نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس)