اشتہار

اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

اشتہار

حیرت انگیز

اے حمید کی کہانیاں ماضی پرستی کے ساتھ اس رومانوی فضا کو جنم دیتی ہیں جس میں اُن کی کتاب کا قاری دیوانہ وار اور بصد شوق صفحے الٹتا چلا جاتا ہے۔ اے حمید اردو کے مقبول ترین کہانی کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے افسانہ نگاری، ناول اور ڈرامہ نویسی میں بڑا نام پایا۔ یہاں ہم ان کی کتاب یادوں کے گلاب سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا اور اے حمید کی ایک حرکت پر حیرانی بھی ہو گی۔

“ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

- Advertisement -

ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“
میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں