اردو کے معروف شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور کئی کتب کے مصنّف حامد اللہ افسر میرٹھ کے باسی تھے اور اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ میرٹھی بھی جوڑ رکھا تھا۔ ان کا تخلّص افسر تھا۔ افسر میرٹھی کا اپنے ہم عصر ادیبوں میں امتیاز بچّوں کے لیے ان کی تخلیقات ہیں۔
حامد اللہ 29 نومبر 1895ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ عربی زبان اور فارسی زبان کی مروّجہ تعلیم کے علاوہ گھر کے علمی، دینی اور ادبی ماحول کی وجہ سے وہ لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کے والد مولوی عصمت اللہ علم و فضل کے لیے مشہور تھے اور اس دور کے سربرآوردہ علما سے اُن کے گہرے تعلقات تھے جن کا اس گھر میں آنا جانا رہتا تھا۔ سو، اس کا اثر افسر میرٹھی پر بھی پڑا۔ اُن کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں مولوی ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ بعد میں مزید تعلیم حاصل کی اور 1916ء میں حامد اللہ کا تقرر پہلی بار نائب تحصیلدار کی حیثیت سے ہوا اور وہ میرٹھ ضلع کی تحصیل جانسٹھ میں متعین کردیے گئے۔ لیکن جلد ہی استعفا دے دیا۔ 1924ء میں الہ آباد کے یو پی گزٹ کے شعبے میں ملازمت اختیار کر لی۔ اعلیٰ تعلیم کے شوق نے یہ دوسری ملازمت بھی چھڑوا دی اور علی گڑھ چلے گئے۔ والد کی وفات کے بعد 1927ء میں افسر میرٹھی لکھنؤ کے جوبلی کالج میں اردو کے استاد مقرر ہو گئے۔ 1950ء میں یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ حامد اللہ افسر میرٹھی کا انتقال لکھنؤ میں 19 اپریل 1974ء کو ہوا۔
افسر میرٹھی نے بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں۔ افسر میرٹھی کے تخلیقی اور تنقیدی ادب کا نمایاں وصف اس کا بامقصد ہونا ہے۔ حامد اللہ افسر کا پہلا شعری مجموعہ ’’پیامِ روح‘‘ تھا اور دوسرا شعری مجموعہ ’’جوئے رواں‘‘ کے نام سے آیا۔ دو افسانوں کے مجموعے ’’ڈالی کا جوگ‘‘ اور ’’پرچھائیاں‘‘ بھی شائع ہوئے۔ تنقیدی کتابوں میں ’’نورس‘‘ اور ’’نقد الادب‘‘ شامل ہیں۔