تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

مولانا حالی اور غریب سائیس

غالباً 1892 یا 93 کا ذکر ہے جب میں مدرسۃُ العلوم مسلمانانِ علی گڑھ میں طالب علم تھا۔ مولانا حالیؔ اس زمانے میں یونین کی پاس کی بنگلیا میں مقیم تھے۔ میں اس سال تعطیلوں کے زمانہ میں وطن نہیں گیا تھا تو بورڈنگ ہاؤس ہی میں رہا۔ اکثر مغرب کے بعد کچھ دیر کے لیے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔

مولوی صاحب اس زمانے میں ‘‘حیاتِ جاوید’’ کی تالیف میں مصروف تھے اور ساتھ ہی ساتھ ‘‘یادگارِ غالب’’ کو بھی ترتیب دے رہے تھے۔ انہیں دنوں میں میرے ایک عزیز میرے ہاں مہمان تھے، میں جو ایک دن مولانا کے ہاں جانے لگا تو وہ بھی میرے ساتھ ہو لیے۔ کچھ دیر مولانا سے بات چیت ہوتی رہی۔ لوٹتے وقت رستے میں عزیز مہمان فرمانے لگے کہ ملنے سے اور باتوں سے تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ وہی مولوی حالیؔ ہیں جنھوں نے ‘‘مسدس’’ لکھا ہے۔ یہ مولانا کی فطری سادگی تھی جو اس خیال کا باعث ہوئی۔

ایک دوسرا واقعہ جو میری آنکھوں کے سامنے پیش آیا اور جس کا ذکر میں نے کسی دوسرے موقع پر کیا ہے۔ یہ 1905ء کا ذکر ہے، جب غفران مآب اعلیٰ حضرت مرحوم کی جوبلی بلدۂ حیدرآباد اور تمام ریاست میں بڑے جوش اور شوق سے منائی جارہی تھی۔ مولانا حالیؔ بھی اس حویلی میں سرکار کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے اور نظام کلب کے ایک حصے میں ٹھہرائے گئے۔ زمانۂ قیام میں اکثر لوگ صبح سے شام تک ان سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک صاحب جو علی گڑھ کالج کے گریجویٹ اور حیدرآباد میں ایک معزز عہدے پر فائز تھے، مولانا سے ملنے آئے، ٹم ٹم پر سوار تھے۔ زینے کے قریب اترنا چاہتے تھے۔ سائیس کی شامت آئی تو اس نے گاڑی دو قدم آگے جاکر کھڑی کی۔

یہ حضرت اس ذرا سی چوک پر آپے سے باہر ہوگئے اور ساڑ ساڑ کئی ہنٹر غریب کے رسید کر دیے۔ مولانا یہ نظارہ اوپر برآمدہ میں کھڑے دیکھ رہے تھے، اس کے بعد وہ کھٹ کھٹ کرکے سیڑھیوں پر سے چڑھ کر اوپر آئے، مولانا (حالیؔ) سے ملے۔ مزاج پُرسی کی اور کچھ دیر باتیں کرکے رخصت ہوگئے۔

میں دیکھ رہا تھا۔ مولانا کا چہرہ بالکل متغیر تھا، وہ برآمدے میں ٹہلتے جاتے تھے اور کہتے تھے ‘‘ہائے ظالم نےکیا کیا۔’’

اس روز کھانا بھی اچھی طرح نہ کھا سکے، کھانے کے بعد قیلولے کی عادت تھی۔ وہ بھی نصیب نہ ہوا۔ فرماتے تھے‘‘یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ہنٹر کسی نے میری پیٹھ پر مارے ہیں۔’’ اس کیفیت سے جو کرب اور درد مولانا کو تھا شاید اس بدنصیب سائیس کو بھی نہ ہوا ہوگا۔

مولانا (حالیؔ) کی سیرت میں یہ دو ممتاز خصوصیتیں تھیں۔ ایک سادگی اور دوسری درد دلی۔

مجھے اپنے زمانے کے نامور اصحاب اور اپنی قوم کے اکثر بڑے شخصوں سے ملنے کا اتفاق ہواہے لیکن مولانا حالیؔ جیسا پاک سیرت اور خصائل کا بزرگ مجھے ابھی تک کوئی نہیں ملا۔


(بابائے اردو مولوی عبدالحق کے قلم سے)

Comments

- Advertisement -