ہفتہ, دسمبر 21, 2024
اشتہار

طرح دار خان

اشتہار

حیرت انگیز

نام تو اُن کا کچھ اور تھا، لیکن ہم انہیں میاں طرح دار کہتے تھے۔ بے تکلّفی زیادہ بڑھی تو صرف طرح دار کہنے لگے۔

شروع میں تو وہ بہت بھنّائے لیکن بعد میں خود بھی اس نام سے مانوس ہو گئے۔ اسکول میں، ہوسٹل میں، بازار میں، دوستوں کی محفل میں، غرض کہ ہر جگہ وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

سردیوں کے دن تھے۔ ہم چار پانچ ہم جولی ہاسٹل کے لان میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے کہ اچانک گیٹ کھلا۔ ایک حضرت دو قلیوں کے ہمراہ داخل ہوئے۔ بکس، بستر، کتابیں اور بہت سارا الّم غلّم دو قلیوں کے سر پر دھرا تھا۔ قلیوں نے سامان برآمدے میں ڈالا، اور صاحبزادے کو سلام کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ میاں طرح دار تھے۔

- Advertisement -

میاں صاحب ذرا نکلتے ہوئے قد کے دھان پان سے آدمی تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک اور بڑے بڑے کان، ان کے لمبوترے چہرے پر کچھ عجیب سے لگتے۔ خیر شکل صورت سے کیا ہوتا ہے، لیکن میاں طرح دار کی جو ادا ہمیں پسند آئی، وہ اُن کی طرح داری تھی۔ خاندانی رئیس ہونے کے سبب سے، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی پائی تھی اور آٹھویں جماعت میں داخل ہو کر پہلی بار شہر تشریف لائے تھے۔

میاں طرح دار کو اپنے قد کاٹھ پر بڑا ناز تھا۔ اپنی خاندانی بڑائی اور ریاست پر بڑا ناز تھا۔ بہادری کا ذکر ہوتا تو میاں طرح دار فوراً اپنا تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے۔ دولت کی بات ہوتی تو اپنی جاگیر کا طول و عرض ناپنے لگتے۔ ذہانت اور چالاکی میں تو اُن کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ لڑکے میاں صاحب کی باتوں سے انکار کو گناہ سمجھتے اور ان کے ہر دعوے پر اس طرح سر ہلاتے جیسے سَر ہلانے میں دیر کی تو آسمان پھٹ پڑے گا۔ اور میاں طرح دار ایسے بھولے کہ ہم جولیوں کی ان باتوں کو بالکل سچ جانتے تھے۔

چار لڑکے برآمدے میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور آگ سینک رہے ہیں۔ کسی نے کہا۔ ’’یارو! سخت سردی ہے۔‘‘ اور میاں طرح دار نے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فقرہ سن کر اچکن اتار دی۔ لڑکوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکیم تیّار کر لی اور میاں صاحب کو گھیر کر بٹھا دیا۔ اب میاں طرح دار ہیں کہ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں، لیکن بہادری کے مارے نہ اچکن پہنتے ہیں نہ انگیٹھی کے قریب آتے ہیں۔ بدن میں کپکپی ہے اور زبان میں لکنت، ہونٹوں پر نیلاہٹ اور آنکھوں میں آنسو لیکن میاں صاحب اس حالت میں بھی اپنے کارنامے سنائے جا رہے ہیں۔ ’’یہ کیا سردی ہے۔ سردی تو ہمارے گاؤں میں پڑتی ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوتا ہے۔ برف پڑ رہی ہے۔ آنگن میں برف، دیواروں پر برف، میدانوں اور کھیتوں میں برف، پانی میں برف کھانے میں برف، بستر میں اور بستر کے تکیے میں برف۔ لیٹے لیٹے، تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا، ایک مُٹھّی برف لی اور مزے سے چر چر چبا رہے ہیں۔‘‘

ہوسٹل کے شریر لڑکے یہ حکایتیں سنتے اور ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں بے حال ہو جاتے۔ اور جوں ہی میاں طرح دار رخصت ہوتے لڑکے ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جاتے بلکہ زخمی پرندے کی طرح برآمدے کے ننگے فرش پر دیر تک تڑپتے رہتے۔

میاں طرح دار عام لڑکوں سے بالکل الگ تھے۔ کپڑے بڑے ٹھاٹ کے پہنتے۔ کھانے کی اچھی اچھی چیزیں گھر سے منگواتے اور پیسے تو بگڑے ہوئے رئیسوں کی طرح مٹھی بھر بھر کے خرچ کرتے۔ یہی نہیں بلکہ میاں صاحب جب کپڑے پہن کر اصیل مرغ کی طرح اپنے کمرے سے اکڑتے ہوئے نکلتے تو ہم جولیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے اور جتا دیتے کہ خوش پوشی مجھ پر ختم ہے۔ تم لوگ بھلا کیا ہو۔

لڑکے میاں طرح دار کے چھچھورے پن پر جی ہی جی میں کڑھتے، لیکن میاں صاحب کو بیوقوف بنا کر اور ان کی حرکتوں پر دل کھول کر ہنس لینے کے بعد انہیں معاف بھی کر دیتے تھے۔ ایک کہتا: ’’یار طرح دار! یہ اچکن کا کپڑا کہاں سے خریدا؟‘‘ بس اس سوال پر وہ پھول کر کُپّا ہو جاتے اور کہتے: ’’ولایت کے ایک کارخانے دار نے والد کو تحفے میں بھیجا تھا۔ یہی تین گز کپڑا تھا جو اس کارخانے میں تیّار ہوا پھر مشین ٹوٹ گئی اور کپڑا بُننا بند ہو گیا۔ لاہور کے عجائب گھر والے مہینوں پیچھے پڑے رہے کہ ہمیں دے دیجیے۔ عجائب گھر میں رکھیں گے، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔‘‘

’’بہت اچھّا کیا۔‘‘ کوئی شریر لڑکا بیچ میں ٹپک پڑتا۔ ’’اور اب تو اسے عجائب گھر میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بھی وہیں رہنا پڑے گا۔‘‘

لڑکے کھلکھلا کر ہنس دیتے اور میاں طرح دار کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھولپن سے کہتے: ’’اور نہیں تو کیا۔‘‘

گرمیوں کا موسم آ گیا تھا۔ امتحانات قریب تھے۔ محفلیں سونی ہو گئیں۔ ہوسٹل کے کھلنڈرے لڑکوں نے بھی کتابیں جھاڑ پونچھ کر سامنے رکھ لیں اور پڑھائی میں جُٹ گئے۔ البتّہ شام کو تھوڑی دیر کے لیے کھیل کے میدان میں رونق نظر آتی اور چاندنی راتوں میں تو اکثر رات گئے گھومنے پھرنے کا پروگرام بن جاتا۔

میاں طرح دار لکھنے پڑھنے کے کچھ ایسے شوقین نہ تھے۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا پھر کتابوں میں کیوں سر کھپاتے۔ اس لیے ان دنوں بیچارے بہت اُداس رہنے لگے تھے۔ لڑکے تو پڑھائی میں مصروف تھے، آخر وہ کہاں جاتے۔ کِس کے پاس بیٹھتے اور بڑائی کے قصّے کسے سُناتے؟ ایک شام کا قصّہ ہے شریر لڑکوں کی ٹولی ہوسٹل کے لان میں بیٹھی تھی۔ میاں طرح دار ٹہلتے ٹہلتے اُن کے درمیان جا پہنچے۔ کوئی لڑکا اپنے گاؤں کے ڈاکوؤں کا قصّہ سُنا رہا تھا۔ طرح دار کو خود پر قابو کہاں۔ جھٹ اپنی بہادری کے قصّے لے بیٹھے۔۔۔ ’’یوں گھوڑی پر سوار ہو کر نکلا۔ یوں دریا پار کیا۔ درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائی۔ ڈاکوؤں کو مار بھگایا۔‘‘ اور اسی طرح کی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔

لڑکے سخت بے مزہ ہوئے۔ آخر ان میں سے ایک بولا: ’’یارو! چودھری کے باغ میں آم پکے ہیں اور ہم یہاں آموں کو ترس رہے ہیں۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ کیا کوئی ایسا جواں مرد نہیں جو چودھری کے باغ سے آم توڑ کر لائے؟‘‘

میاں طرح دار نے سینے پر ہاتھ مارا اور اکڑ کر بولے: ’’میں حاضر ہوں۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘

لو صاحب! ایک پَل میں ساری اسکیم تیّار ہو گئی۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ ہر طرف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ چاند کبھی بادلوں میں چھپ جاتا تو گھپ اندھیرے کا عالم ہو جاتا۔ ہوسٹل کا گیٹ کب کا بند ہو چکا تھا۔ چوکی دار دیوار کے قریب چار پائی پر لیٹا میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔ البتّہ چوکی دار کا کتّا کبھی کبھی سوتے سے چونک کر اُٹھتا اور چاند کی طرف منہ کر کے سائرن کی آواز میں ’’بھو اُو و و و‘‘ کرنے کے بعد بھر اونگھنے لگتا۔

لڑکوں کی ٹولی دیوار پھلانگ کر ہوسٹل سے باہر نکلی اور آموں کے باغ کی طرف، جو مشکل سے ایک فرلانگ تھا، روانہ ہوئی۔ میاں طرح دار سب سے آگے تھے۔ البتّہ جب چاند بدلیوں میں چھُپ جاتا اور کہیں قریب سے کتّوں کے بھونکنے کی آواز آتی تو میاں صاحب دبک کر پیچھے ہو جاتے اور خوف سے کانپ اُٹھتے۔ اسی طرح یہ لوگ باغ کے اندر جا پہنچے۔

چاندنی آم کے گھنے باغ میں یوں پھیلی ہوئی تھی جیسے کسی نے شیشے کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھیر دیے ہوں۔ باغ کا چوکی دار اپنی جھونپڑی میں پڑا سو رہا ہو گا۔ لڑکوں نے سرگوشی میں مشورے کیے اور میاں طرح دار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پاجامے کے پائنچے اوپر کر کے درخت پر چڑھنے لگے۔ لیکن دھان پان سے آدمی درخت پر چڑھنے کی سکت کہاں سے لاتے۔ ذرا سی دیر میں ہانپنے لگے۔ لڑکوں نے جو یہ حال دیکھا تو میاں صاحب کی مدد کو پہنچے اور انہیں کاندھے پر سوار کر کے درخت پر چڑھا ہی دیا۔

میاں طرح دار دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتی ہوئی ٹانگوں سے ابھی ذرا ہی اُوپر گئے ہوں گے کہ چوکی دار کے کتّے نے آہٹ پا کر بھونکنا شروع کر دیا۔ لڑکوں کے اوسان خطا ہو گئے اور میاں طرح دار کی تو یہ حالت ہوئی جیسے بدن میں جان ہی نہیں رہی تھی۔ ایک لڑکے نے آہستہ سے کہا ’’طرح دار! جلدی نیچے اُتر آؤ۔۔۔ فوراً کود پڑو۔ ہم تمہیں سنبھال لیں گے لیکن میاں صاحب میں تو ہلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔ لڑکوں نے جو دیکھا کہ میاں طرح دار کے ہاتھوں سبھی پکڑے جائیں گے تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ چوکی دار کے کتّے نے کچھ دور اُن کا پیچھا کیا اور پھر دُم ہلاتا ہوا واپس آ گیا۔

اُدھر میاں طرح دار درخت کی ٹہنی پر بیٹھے، خوف کے مارے اپنی موت کی دعا مانگ رہے تھے۔ ان کا سارا بدن پسینے میں شرابور تھا اور ہاتھ پاؤں یوں کانپ رہے تھے جیسے آندھی میں درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں۔ کتّے کو چور کے بدن کی خوشبو مل گئی تھی، وہ اُسی درخت کے نیچے جس پر میاں طرح دار کا آشیانہ تھا، کھڑا دُم ہلا ہلا کر بھونک رہا تھا۔ چوکی دار ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں لاٹھی لے کر آنکھیں جھپکتا ہُوا آیا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلا گیا۔

وہ رات میاں طرح دار نے درخت پر گزاری۔ کتّا کتنی ہی بار بھونکتا ہوا آیا اور واپس چلا گیا اور چوکیدار کتنی ہی دفعہ چور کی تلاش میں لاٹھی گھماتا ہوا پاس سے نکل گیا۔ میاں طرح دار نے ایک دو بار کوشش کی کہ چوکی دار کو مدد کے لیے پکاریں، لیکن منہ سے آواز ہی نہ نکلی۔

پچھلی رات کو چوکی دار پھر اِدھر سے گزرا تو اچانک چاندنی میں اُس کی نظر میاں طرح دار پر پڑ گئی۔ قریب تھا کہ میاں صاحب بے ہوش ہو کر گِر پڑتے لیکن چوکی دار نے جب ڈپٹ کر کہا، ’’نیچے اُترو‘‘ تو وہ درخت کی ٹہنی سے کچھ اور چمٹ گئے اور رو کر بولے: ’’مجھے نیچے اترنا نہیں آتا۔‘‘

چوکی دار سمجھ گیا کہ چور قابو میں آ گیا ہے اور کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا۔ وہ چپ چاپ واپس ہوا اور لمبی تان کر سو رہا، صبح جب اُس نے میاں طرح دار کو کاندھا دے کر درخت سے نیچے اتارا تو وہ خوف اور رتجگے کے سبب بخار میں بھن رہے تھے۔ وہ کوئی بھلا آدمی تھا۔ میاں صاحب کو کاندھے پر لاد کر ہوسٹل میں ڈال گیا۔ آخر علاج معالجے کے بعد میاں صاحب کی طبیعت بحال ہوئی اور دوستوں نے ان کی صحت کی خوشی میں دعوت بھی اُڑائی لیکن میاں طرح دار نے اس واقعے کے بعد سے اپنی فرضی بہادری کے سارے کارنامے بھلا دیے تھے۔

(ادبِ اطفال سے مصنّف حسن عابدی کی منتخب کہانی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں