کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے لکھاریوں کے زمانے میں حیات اللہ انصاری نے ادبی فضا کو اپنے افسانے ‘‘بڈھا سود خور’’ سے جھنجھوڑا۔
یہ اس قلم کار کے حقیقت پسند اور انسان دوست ہونے کا ثبوت تھا۔ یہ کہانی روایتی ڈگر سے ہٹ کر تھی جو حیات اللہ انصاری کی پہلی مطبوعہ تخلیق تھی۔ یہ بات ہے 1930 کی۔ بعد کا دور جس حیات اللہ انصاری کا ہے، اس کا تعارف کچھ یوں ہے۔
حیات اللہ انصاری افسانہ نویس، ناول نگار، ناقد اور جید صحافی کی حثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ مختصر کہانی اور افسانہ نگاری میں کمال رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں ان کو ایک ماہرِ تعلیم ہی نہیں بلکہ تحریکِ اردو کا متحرک کارکن بھی کہا جاتا ہے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کے علاوہ جو لکھاری قابلِ ذکر تھے ان میں مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری کا نام بھی افسانوی ادب کے حوالے سے ابھر رہا تھا۔
‘‘بڈھا سود خور’’ میں اس دور کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ بعد کے زمانے میں بھی ان کی جو تخلیقات قارئین تک پہنچیں ان میں حقیقت پسندی اور انسان دوستی حاوی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ وہ مختصر افسانے لکھنے والوں میں اہم مانے جاتے ہیں۔
حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے قارئین اور ناقدین سبھی کو متاثر کیا۔ خوب صورت اور دل نشیں طرزِ تحریر کے ساتھ بلند خیالی اور مقصد ان کی کہانیوں کو مقبول بناتا ہے۔
حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا۔ دوسرا ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرا ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے شایع ہوا۔ 1991 میں دہلی سے ‘‘ٹھکانہ’’ کی اشاعت ہوئی جو ان کی چوتھی کتاب تھی۔ ‘‘ لہو کے پھول’’ ان کا وہ ناول تھا جس کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا جس پر بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔
لکھنؤ ان کا وطن تھا۔ 1912 میں پیدا ہوئے اور اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسے بھیجے گئے۔ بعد میں علی گڑھ سے بی اے کی سند لی۔ لکھنے کی طرف مائل ہوئے تو ترقی پسند تحریک سے جڑے مگر سیاسی نظریہ انھیں کانگریس کے پلیٹ فارم پر لے گیا اور وہ سیاست داں کے طور پر بھی متحرک نظر آئے۔
1999 ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔ دہلی میں اس باکمال افسانہ نگار اور کہنہ مشق صحافی نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔