اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

اشتہار

حیرت انگیز

کھیل کے میدان میں چُستی پھرتی دکھانا اور اکھاڑوں میں جسمانی طاقت کا مظاہرہ اور زور آزمائی شاید اُس زمانے کی باتیں‌ ہیں‌ جب غذا اور ہماری خوراک خالص اور مقوّی ہُوا کرتی تھی۔ انسان کسرت اور صحت مند مشاغل کے عادی تھے۔ ایسے طاقت وَر لوگ کسی حملہ آور یا لٹیرے کا مقابلہ بھی ڈٹ کر کیا کرتے تھے۔

آج کا دور کُشتی، ملاکھڑے، پنجہ آزمائی کا نہیں‌، لیکن ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ کھیل اور دیسی ہتھیاروں کا استعمال باقاعدہ فن کا درجہ رکھتا تھا۔ پٹے بازی اور بنّوٹ بھی ایک قسم کے ہتھیار تھے۔ یہاں ہم تقسیمِ ہند سے کئی سال قبل دلّی کے ماہر بنّوٹ باز اور طاقت وَر لٹیرے سے متعلق دو حیران کن واقعات نقل کررہے ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جنھیں‌ پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

"پٹے بازی اور بنّوٹ یہ دونوں فن حقیقت میں عجیب و غریب ہیں۔ پٹے بازی کے ایک ادنیٰ درجے کا فن ہے مگر بنّوٹ اس کے مقابلے میں میں بہت اعلٰی درجے کا ہے۔ ایک شخص جو عمدہ بنّوٹ جانتا ہے دو، چار نہیں بلکہ دس بیس آدمیوں کے قابو میں نہیں آ سکتا!”

- Advertisement -

"ان دونوں فنون کے استاد دہلی میں میں بکثرت موجود تھے مگر اب ان کا بالکل کال ہے۔ سارے شہر میں اس فن کے شاید دو ایک استاد ہوں تو ہوں۔”

"1881ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جس پر خون کا الزام تھا اور بڑا قوی ہیکل اور زبردست جوان تھا، وہ یکایک دہلی پولیس کے ہاتھ سے ہتھکڑیاں توڑ کر نکل گیا اور ایک سپاہی کی تلوار چھین کر عدالت سے نیچے اتر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ عدالت میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر چند اس سے تلوار چھیننے کی کوشش کی گئی مگر کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ دلیری سے اس کے پاس جاتا اور اس سے تلوار چھین لیتا۔ وہ برابر آواز پر آواز دے رہا تھا کہ کسی کو جرأت ہو تو میرے سامنے آئے۔”

"آخر یہ بات طے ہوئی کہ اگر یہ آسانی کے ساتھ تلوار نہ دے تو اسے گولی مار دی جائے کہ اتنے میں ایک میر صاحب جو بہت ہی کمزور ہاتھ پیر کے، پستہ قامت تھے اور غالباً دہلی کے رجسٹری کے محکمے میں کام کرتے تھے اپنے دفتر سے باہر نکل آئے اور حکام سے یہ کہا کہ اگر حکم ہو تو میں اسے زندہ گرفتار کر لوں۔ یہ سن کر ان کو بڑا تعجب ہوا۔ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ واقعی اس سے تلوار چھین لیں گے؟ انھوں نے کہا یہ معمولی سی بات ہے۔ میں اس ایک سے نہیں بلکہ کئی ایک آدمیوں سے تلوار چھین سکتا ہوں۔ چنانچہ انہیں حکم ملا۔ انھوں نے ایک پیسہ اپنے رومال میں باندھا اور اس کے آگے گئے۔ اس نے ہنس کر کہا کہ آپ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں، سامنے سے ہٹ جائیے ورنہ میں تلوار سے آپ کی گردن اڑا دوں گا۔ میر صاحب نے ہنس کر کہا کہ بھائی تیری خیر اسی میں ہے کہ تلوار دے دے، ورنہ تجھے سخت نقصان پہنچے گا۔ وہ یہ سنتے ہی لال پیلا ہو گیا اور میر صاحب پر تلوار لے کے شیر کی طرح جھپٹا۔ میر صاحب نے پینترا کاٹ کے اس کی کلائی پر اس زور سے رومال میں بندھا ہوا ہوا پیسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے کئی گز آگے جا پڑی۔ چوںکہ وہ پیسہ کلائی کی رگ پر لگا تھا، خود ایسا چکرا کے گرا کہ کئی منٹ تک اسے ہوش نہ آیا۔ آخر وہ زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور میر صاحب کی بڑی واہ واہ ہوئی۔”

"اسی طرح ایک ڈاکو جس کا قد آٹھ فٹ سے کم نہ تھا اور جو ایک دیو معلوم ہوتا تھا، جس کی قوّت یہاں تک تھی کہ موٹی موٹی زنجیریں بہت آسانی سے توڑ دیا کرتا تھا۔ جس کے آگے آٹھ دس من کا بوجھ اٹھا لینا ایک معمولی بات تھی جو تنہا ڈاکہ مارا کرتا تھا۔ اپنی حسبِ عادت وہ نجف گڑھ کے ایک سپاہی جو انگریزی پلٹن میں ملازم تھا، کے گھر میں آیا۔ اس ڈاکو کی یہ عادت تھی کہ وہ گھر میں گھس کے سارا سامان نہایت اطمینان کے ساتھ باندھ لیتا تھا اور جب چلنے لگتا تھا تو گھر والوں کو جگا کے آگاہ کر دیتا تھا کہ اگر تم سے روکا جائے تو مجھ کو روکو، میں تمہارا سامان لے کے جاتا ہوں۔”

"اتفاق سے سپاہی کی بیوی اور اس کی بڑھیا ساس کے سوا مکان میں کوئی نہ تھا، اس نے حسبِ عادت ان عورتوں کو جگایا اور کہا میں سامان لے کے جاتا ہوں۔ سپاہی کی بیوی پہلے ہی سے جاگ رہی تھی، اور یہ سارا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ڈاکو کی آواز سن کر صرف اتنا کہا کہا کہ اچھا تُو میرے گھر کا سامان لے جا رہا ہے، لے جا۔ میں عورت ذات ہوں اور ایک میری بڑھیا ماں ہے۔ اس وقت اگر میرا شوہر ہوتا اور تُو اس کے آگے سے سامان لے جاتا تو میں جانتی کہ تُو بڑا ڈاکو ہے۔ یہ سن کر ڈاکو نے ایک بڑا قہقہہ لگایا اور اس سے دریافت کیا کہ تیرا شوہر کب آئے گا۔ اس نے کہا کہ وہ جلد آنے والا ہے، اس کی رخصت منظور ہو چکی ہے ہے۔ وہ غالباً ہفتہ عشرے میں یہاں پہنچ جائے گا، اس پر ڈاکو بولا کہ ہم یہ سامان یہیں چھوڑ جاتے ہیں، جب تیرا شوہر آئے گا اسی وقت آ کے لے جائیں گے۔ یہ کہہ کر ڈاکو چلا گیا۔ کوئی پندرہ دن کے بعد وہ دیو نژاد ڈاکو جس کے ہاتھ میں ایک من کے وزن کا لوہے کا ڈنڈا رہتا تھا۔ پھر اس سپاہی کے مکان میں آیا۔ اسی طرح بے تکلفی سے اس نے سارا سامان باندھا اور جب اپنا کام کر چکا تو اس نے سپاہی کو جگایا اور کہا میں یہ سامان لے جاتا ہوں۔ سپاہی اٹھ کھڑا ہوا، بانس کی ایک معمولی لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اور اس نے ڈاکو سے کہا تیری اسی میں خیر ہے کہ تو یہ کُل سامان جہاں سے سمیٹا ہے وہیں رکھ دے اور اپنی جان بچا کے چلا جا۔”

"دیو نژاد ڈاکو بہت حقارت سے خندہ زن ہوا اور کہا کہ ڈنڈا جو میرے ہاتھ میں ہے اتنے وزن کا ہے کہ تو اسے اٹھا نہیں سکتا۔ تین ڈنڈے سے ایک زبردست بھینسے اور سانڈ کو بٹھا دیتا ہوں۔ تیری عورت حقیقت میں بڑی دلیر ہے کہ اس نے مجھ سے دو بہ دو باتیں کی تھیں۔ ایسی عورت پر مجھے رحم کھانا چاہیے۔ تیری اس جرأت سے یقینا وہ بیوہ ہو جائے گی اور تو مفت میں جان دے دے گا۔ میرے ایک ہاتھ کا بھی تُو نہیں ہے۔ بس تُو جا اور اپنی بیوی کی جوانی پر رحم کھا کے اپنے پلنگ پر سو جا۔”

"سپاہی نے ایک قہقہہ مارا اور پھر جھلا کے کہا کہ اس بیہودگی سے کوئی نتیجہ نہیں، اگر تو اپنی جان کی خیر چاہتا ہے تو اس سامان کو کھول اور جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔ ڈاکو کو سپاہی کی یہ بد زبانی اچھی نہ معلوم ہوئی۔ اس نے فوراً اپنے لوہے کا ڈنڈا رسید کیا۔ سپاہی چونکہ ہوشیار کھڑا تھا اس کا ہاتھ خالی دے کے اور بڑی دلیری سے للکار کے کہا کہ او نامراد! اگر تجھ میں میں جرأت ہے تو اور دل کا حوصلہ نکال لے۔ چنانچہ ڈاکو نے غصے میں آ کے ڈنڈا پھرا کے مارا، مگر وہ بھی خالی گیا۔ سپاہی نے اس پر کہا کہ لے اب سنبھل، تیرے دو وار ہو چکے ہیں، تیسرا وار میرا ہے۔ یہ کہہ کر کچھ ایسی لکڑی اس کی شہ رگ پر ماری کہ وہ دیو چکرا کے گر پڑا۔ سپاہی اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور زور سے ٹھوکر مار کے کہا، بس اس برتے پر اتنا پھول رہا تھا، ایک معمولی بانس کی لکڑی بھی نہ کھا سکا۔ چنانچہ بڑی دیر میں اسے ہوش آیا، مگر اس میں کسی قسم کی ہمت نہ رہی۔ وہ سپاہی کے پیروں پر گر پڑا اور کہا مجھے امان دو، میں تمہارا مدتُ العمر خادم رہوں گا۔”

"یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جو لوگ بنّوٹ کے فن سے ناواقف ہیں وہ ممکن ہے کہ اسے کہانی سمجھیں یا مبالغہ خیال کریں، مگر فی الواقع جنہوں نے بنّوٹ کے استادوں کو دیکھا ہے یا کم و بیش اس فن کی خود ورزش کر چکے ہیں، وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک صاحبِ فن کس آسانی سے دس بیس آدمیوں پر غالب آ سکتا ہے۔ دہلی میں 1857ء سے پہلے اور بعد تک لکڑی اور بنّوٹ کے علیحدہ علیحدہ اکھاڑے تھے۔ شرفا اور امرا کے بچّے اس کی باقاعدہ تعلیم پاتے تھے۔ اسی طرح پنجہ اور کلائی کے استاد دہلی میں ایسے موجود تھے جن کی نظیر اب نہیں ملتی۔”

(دہلی کی یادگار ہستیاں از امداد صابری)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں