یہ آم بھی عجب پھل ہے۔ پھلوں کے حساب سے کوئی ایسا نام وَر پھل بھی نہیں ہے، مگر جب بازار میں اس کی نمود ہوتی ہے تو باقی سب پھل پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
ارے! آپ کو پتہ ہے کہ آموں کے عشاق میں ہمارے دو نامی گرامی شاعر بھی شامل ہیں۔ بھلا کون؟ غالب اور اقبال۔
غالب نے تو شعر لکھ کر آم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آم کو بہشت کا پھل بتایا ہے۔ کہتے ہیں:
باغبانوں نے باغِ جنّت سے
انگبیں کے بہ حکمِ ربُّ النّاس
بھر کے بھیجے ہیں سر بہ مُہر گلاس
اور اب اس ذیل میں ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ مرزا غالب اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ یار دوست جمع تھے۔ سامنے سے کچھ گدھے گزرے۔ گزر گاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا ٹھٹھکا۔ گٹھلیوں چھلکوں کو سونگھا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک دوست نے از راہِ تفنّن کہا مرزا صاحب آپ نے ملاحظہ فرمایا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔
مرزا مسکرائے۔ بولے ’’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔‘‘
آموں کی ایک فصل علامہ اقبال پر بہت بھاری گزری۔ حکیم صاحب نے انھیں ہدایت کی کہ آموں سے پرہیز کیجیے، مگر جب دیکھا کہ مریض بہت مچل رہا ہے تو کہا کہ اچّھا آپ دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ تب علّامہ صاحب نے علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھو، جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہ خرید کر لایا کرو۔
اقبالیات کے محققین عجب بد ذوق ہیں۔ کسی نے اقبال اور آم کے مضمون میں تحقیق کے جوہر نہیں دکھائے۔ ہاں یاد آیا ایک برس ڈاکٹر جمیل جالبی یومِ اقبال کی تقریب سے پنجاب یونیورسٹی کے بلاوے پر کراچی سے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے اقبال کے خطوط کو اپنے مقالہ میں چھانا پھٹکا تھا۔ کچھ خطوط انھوں نے آم و جامن کے حوالے سے بھی برآمد کیے تھے۔ ایک خط دربارۂ آم ملاحظہ فرمائیے۔
’’آموں کی کشش، کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔ ہاں آموں پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا۔ میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی ؎
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا‘‘
اس زمانے میں آموں کے نام سب سے بڑھ کر لنگڑے کی دھوم تھی۔ اکبر الہ آبادی نے اس تقریب سے علامہ کو لنگڑے کا تحفہ بھیجا۔ اب لنگڑا، لنگڑاتا لنگڑاتا کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب کون اس کا نام لیوا ہے۔ اب تو چونسہ کا بول بالا ہے۔
عجب بات ہے کہ یوں تو آم و جامن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر آموں کے رسیا آم کھاتے ہوئے اتنے مست ہو جاتے ہیں کہ غریب جامن کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔
خیر، ایسی بات بھی نہیں ہے کہ جامن کے قدر دان سرے سے مفقود ہوں۔ تو مت بھولو کہ برکھا کی یہ رُت خالی آموں کی رت نہیں ہوتی۔ آموں کے ساتھ جامنیں بھی ہیں۔ اور جامنوں کا اپنا ذائقہ ہے اور اپنا رنگ روپ ہے جسے ہم جامنی رنگ کہتے ہیں۔ چاہیں تو آپ انھیں اودی اودی جامنیں کہہ لیں۔
آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو۔
(اردو کے ممتاز ادیب، ناول اور افسانہ نگار اور نقّاد انتظار حسین کے ایک کالم سے اقتباسات)