بدھ, اپریل 23, 2025
اشتہار

جیلانی بانو کی سماعت سے ٹکرانے والا ایک جملہ

اشتہار

حیرت انگیز

جیلانی بانو سے مل کر قدم قدم پر یہی احساس ہوتا ہے جیسے ہم جیلانی بانو سے نہ ملے ہوں، غلطی سے کسی اور خاتون سے ملے ہوں جسے اچھے کپڑے پہننے اچھے کھانے پکانے اور ساتھ ساتھ سلائی کی مشین چلانے کا ایک خبط ہو۔ ایسا ہی احساس مجھے واجدہ تبسّم سے پہلی بار مل کر ہوا تھا لیکن یہاں مجھے بانو کی شخصیت کا احاطہ کرنا ہے۔

مجھے سنہ تو یاد نہیں 53 یا 55ء کی شاید بات ہو۔ ایک پوسٹ مین ہوا کرتا تھا جس کا نام رزاق تھا۔ ملّے پلّی کا علاقہ اسی کے سپرد تھا۔ 108/A کے گھر حاضری دینا اس کا معمول تھا۔ وہ خطوط کے علاوہ رسائل کا ایک بنڈل روز پھینک جاتا تھا اور بڑی دیر تک ٹھہرا بھی رہتا تھا جیسے وہ گھر نہ ہو پوسٹ آفس کا سارٹنگ آفس ہو۔ کبھی کبھار حبیب نگر کے چوراہے پر مڈبھیڑ ہو جاتی تو میں پوچھتا۔ ’’کوئی خط۔ ۔ ۔ ؟‘‘ تو کہتا۔ ’’آج تو نہیں ہے میاں۔ ‘‘

جواباً میں اسے چھیڑتے ہوئے کہتا۔ ’’کل کب تھا۔‘‘ تو وہ ہنستا ہوا 108/A پر پہنچ کر اپنی سائیکل کو یوں روکتا جیسے وہ تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہو۔

کبھی کبھار دو ایک خط ہمارے ہاتھ تھماتا ہوا وہ 108/A کی طرف اشارہ کرتا ہوا کہتا۔ ’’آدھا بوجھ تو میرا یہیں ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ سارٹنگ آفس نہیں افسانہ نگار جیلانی بانو کا گھر ہے جو علامہ حیرت بدایونی کی صاحبزادی ہیں۔

اس وقت تک میرے ذہن میں حیدرآباد کے ادیبوں اور شاعروں میں مخدوم، شاہد صدیقی، سلیمان اریب، کنول پرشاد کنول، اقبال متین، عزیز قیسی، زینت ساجدہ اور عاتق شاہ ہی کے نام تھے لیکن جیلانی بانو کے نام اور کام سے میں واقف نہ تھا اور نہ ہی دل کے کسی کونے میں ایسی خواہش تھی کہ بانو کو پڑھا جائے۔ گو ماہ نامہ’’ چراغ‘‘ میں پکّی روشنائی سے جیلانی بانو کا نام بھی آیا کرتا تھا۔ پھر سلیمان اریب سے ملاقات ہوئی۔ ’’سب رس‘‘ کے جب وہ مدیر ہوئے تو ان سے ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ ان کے پیچھے جوان ادیبوں کا ایک قافلہ ہوا کرتا تھا ان میں چند سکہ بند ادیب بھی تھے جو لکھتے کم تھے اور اپنا ڈھنڈورا زیادہ پیٹتے تھے۔ لیکن مزاجاً اریب ایک معقول انسان تھے۔

اس وقت تک شاذ اور وحید اختر نے باقاعدہ لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ پوسٹ مین رزاق کی تبدیلی ہو چکی تھی اور اس کی جگہ ایک نئے پوسٹ مین نے لے لی تھی۔

پوسٹ مین کی آواز اب ہمارے لیے نامانوس نہ تھی اور آج تو کچھ نہیں ہے کہنے والے ڈاکیا کی جگہ، آج بھی بہت کچھ ہے۔ کہنے والا ڈاکیا ہمارے درمیان آ چکا تھا۔ عجیب طفلانہ دور تھا وہ بھی۔ آج ان باتوں کو سوچ کر ہنسی آتی ہے۔

ادبی محفلوں میں اور خانگی نشستوں میں جیلانی بانو کا ذکر خیر بھی اکثر آتا رہتا ہے۔ ’’عوامی مصنفین‘‘ سے تعلق رکھنے والا کوئی شاعر یا ادیب کہتا، ’’بھلا جیلانی بانو سے افسانے کا کیا تعلق؟ افسانہ تو مشاہدہ کی دین ہے وہ تو ایک پردہ نشیں لڑکی ہے۔ کوئی کہتا، ’’وہ حیدرآباد میں پیدا ہو کر بھی اپنے آپ کو ابھی تک بدایونی ہی سمجھتی ہیں، وہ تو نان ملکی ہیں۔ کوئی دل جلا کہتا، یوروپین غیر ملکی۔ میرے ذہن میں آتا کیا واقعی بدایوں ہندوستان میں نہیں ہے یا پھر ہم لوگ خود جلا وطن ہیں۔

پھر کچھ عرصہ بعد کسی نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے ایک معتبر رسالہ’’ ادبِ لطیف‘‘ میں جیلانی بانو کی ایک کہانی چھپی ہے جس میں مخدوم کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے جب مخدوم کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو انہیں یقین نہیں آیا کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن بہت سارے لوگوں نے جب اس کی تصدیق کی تو مخدوم نے یہی بہتر سمجھا کہ علامہ حیرت بدایونی سے اس کی تصدیق کی جائے۔

ایک دن مخدوم علّامہ کے گھر گئے ان سے کچھ چھیڑ چھاڑ کی اور کہا آپ کے گھر تو ایک شیطان جنم لے رہا ہے۔ پھر انہوں نے علامہ سے کہا۔ بانو کو بلوایا جائے، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ بانو کے لیے کسی اہم شاعر اور ادیب سے ملنے کا شاید یہ پہلا موقع تھا۔ مخدوم نے جب بانو سے اس کہانی کی بات کی تو بانو نے وہ رسالہ ان کے ہاتھ تھما دیا۔

دوسرے دن مخدوم نے رسالہ لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں میرے تعلق سے کوئی بات ہی نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ جیلانی بانو کی کہانیوں کے مجموعہ ’’روشنی کے مینار‘‘ پر احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مخدوم کی بھی توصیفی رائے درج ہے۔

ان ہی دنوں یہ بات مشہور تھی کہ جیلانی بانو پہلے تو کسی ادیب اور شاعر سے ملتی ہی نہیں اور اگر ملتی بھی ہیں تو گفتگو کی تان ندیم بھائی کا کہانی کے لیے خط آیا ہے یا طفیل صاحب نے نقوش کے افسانہ نمبر کے لیے ٹیلیگرام بھجوایا ہے یا مرزا ادیب نے… ان کی گفتگو کا محور یہی کچھ ہوتا۔

وہ اپنی ذات کے علاوہ کوئی اور بات کرتی ہی نہیں۔ ظاہر ہے ان باتوں کو سننے کے لیے کس کے ہاں اتنا وقت ہے۔ جیلانی بانو سے ملنے اور افسانے پر بات کرنے کے ذہن کے کسی گوشے میں جو خواہش تھی وہ ان باتوں کو سننے کے بعد دب سی گئی۔

پھر جب وہ شاعر اور ڈرامہ نگار دوست انور معظم سے بیاہی گئیں تو گاہے گاہے ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کے دوران نہ نقوش ہی درمیان میں آ ٹپکا۔ اور نہ فنون۔ اور بانو نے کبھی اپنی اچھی کہانیوں کی نشان دہی کی۔ یہ تو کوئی دوسری جیلانی بانو نکلیں۔ پھر ایک بار مجھے حیرت ہوئی اور یہ حیرت آج تک بھی باقی ہے اس وقت بھی جب کہ میں ان پر خاکہ لکھنے بیٹھا ہوں۔

احمد ندیم قاسمی کی شرافتوں کے سب ہی قائل ہیں۔ انہیں ایک بہت ہی اچھا افسانہ نگار اور شاعر ماننے پر مجبور ہیں۔ اگر ذکر احمد ندیم قاسمی کا ہو یا محمد طفیل کا، جمیل جالبی کا ہو یا مرزا ادیب کا فیض کا ہو یا سجاد ظہیر کا مخدوم کا ہو یا کسی اور محبوب شاعر اور ادیب کا۔ جیلانی بانو اسی صورت میں ان کا ذکر اور تعریف کریں گی جب آپ نے خود ان کا ذکر چھیڑا ہو یا بات ہی کچھ ایسی نکل آئے کہ ان کا ذکر ناگزیر ہو مگر وہ اپنی کہانیوں اور کتابوں کے ذکر سے اپنے آپ کو یوں محفوظ رکھیں گی جیسے وہ افسانہ نگار نہیں کوئی اور مخلوق ہوں۔

اردو ادب کا وہ قاری جو افسانہ نگار اور شاعر سے کہانیاں اور نظمیں سننے کا برسوں سے عادی رہا ہو اسے جیلانی بانو سے مل کر یقینی مایوسی ہوگی۔ کیوں کہ وہ گھر آئے ہوئے مہمان کی تواضع موسم کے مطابق چائے آئسکریم یا کسی ٹھنڈے مشروب سے کریں گی اور کہانی کہیں درمیان ہی میں لٹکتی رہ جائے گی۔ ہاں اگر کوئی خاص ادبی محفل ہو تو وہ افسانہ ضرور سنائیں گی۔

جیلانی بانو موسیقی اور پینٹنگ کا بھی ایک خاص ذوق رکھتی ہیں۔ فائن آرٹس کی طرف ان کا یہ جھکاؤ ان کے ایک فطری آرٹسٹ ہونے کی دلیل بھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ کلاسیکل میوزک ، پکّے گانوں راگ اور راگنیوں کی بھی نبض شناس ہیں۔ ان کی خوب صورت کہانی ’’دیو داسی‘‘ در اصل راگ جیے جیونتی ہی کا ایک روپ ہے۔

بانو کہانی کے پہلے جملے کو بڑی اہمیت دیتی ہیں۔ کہانی کا پہلا جملہ اگر خوب صورت اور بھرپور نہ ہو تو وہ کہانی لکھنے کے بعد کہیں چھپنے کے لیے نہیں بھیجتیں لیکن اچھی کہانی کے لیے یہ کوئی بندھا ٹکا فارمولا نہیں ہے۔

جیلانی بانو کو ادب میں زندہ رکھنے کے لیے ان کی ایک کہانی ’’پرایا گھر‘‘ ہی کافی ہے۔ پرایا گھر کی شانِ نزول کے بارے میں جب میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا یہ کہانی ایک جملے کو سُن کر لکھی گئی ہے۔ ہوا یوں کہ بانو کہیں رکشہ میں جا رہی تھیں انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا۔

’’جاؤ، جاؤ خدا حافظ، اپنے گھر جانا نہ بھولنا۔‘‘

(معروف افسانہ نگار جیلانی بانو کے شخصی خاکے سے چند پارے جس کے مصنّف عوض سعید ہیں)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں