آہنگِ بازگشت مولوی محمد سعید کی خود نوشت ہے جس میں مصنف نے ایک طویل اور ہنگامہ خیز عہد کے مختلف واقعات کو سمیٹا ہے۔ اسے ہم بیسویں صدی کی تاریخی اور عہد ساز شخصیات کی داستان، ادب و صحافت کے میدان کی کہانیاں کہہ سکتے ہیں جب کہ اس آپ بیتی میں برصغیر کی ناقابلِ فراموش سیاسی تحریک اور اس سے جڑی شخصیات کو بھی منظر کیا گیا ہے۔
یہاں ہم ادیب اور صحافی مولوی سعید کی اسی کتاب سے گاندھی کے قتل کے بعد ان کے تذکرے پر مبنی ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں۔ مولوی سعید لکھتے ہیں:
30 جنوری 1948ء کی شام تھی۔ میں ہمشیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا کہ میرا منجھلا بھانجا بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا ”مہاتما گاندھی کو گولی لگ گئی ہے۔ لوگوں نے ریڈیو پر سنا ہے۔
“ یہ سن کر بڑا قلق ہوا۔ ذہن میں بے شمار خدشات ابھرنے لگے کہ اگر کسی مسلمان نے انھیں قتل کیا ہے، تو اسی آڑ میں اب تک بیسیوں مسلمان بستیاں تہ تیغ ہوچکی ہوں گی، لیکن جب تفصیلات آنا شروع ہوئیں اور خود پٹیل کی زبانی سنا کہ قاتل ایک ہندو نتھورام گوڈسے ہے تو کم ازکم یہ خدشہ رفع ہوگیا۔
دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات نئی دہلی پہنچنا شروع ہو گئے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا، جہاں ان کی موت نے انسانوں کو مغموم نہ کیا ہو۔ پاکستان میں بازار اور سینما فوراً بند ہو گئے۔ ریڈیو پر سے گاندھی جی کے بارے میں اتنا جامع پروگرام پیش کیا گیا کہ خود ہندوستانیوں نے اپنے ریڈیو کی کم مائیگی پر شکوہ اخباروں میں کیا۔ ’پاکستان ٹائمز‘ میں فیض صاحب نے بڑا پُر سوز مقالہ لکھا جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ فیض کی شاعرانہ افتاد طبع بھی بڑی آب و تاب سے جھلک رہی تھی۔
قائد اعظم کا پیغام حسب معمول ہر شاعری سے مبرا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو اس پس منظر سے جدا نہ کیا، جس میں ربع صدی سے دونوں ایک دوسرے کے رفیق و حریف رہ چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی عظیم ہندو راہ نما تھے۔ عام لوگ اس ماحول میں اس پیغام سے قدرے مایوس ہوئے لیکن قائد نے ہنگامی طور پر بھی اپنے طویل سیاسی تجربے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کیا۔ وہ شخصیات کو ان کے کردار اور ماحول سے جدا کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک ہر فعال شخصیت کی طرح گاندھی جی کسی لمحے بھی تنقید سے بالا نہیں تھے۔ گاندھی جی نے ہر بڑے آدمی کی طرح اپنے مداح بھی چھوڑے اور ناقد بھی۔ خود انگریزوں کے اندر بعض اہل قلم ان کی مہاتمیت سے مرعوب تھے اور بعض انتہائی نکتہ چیں۔ چناں چہ لارڈ ویول نے ان کی شخصیت کا جو تجزیہ کیا ہے ان کے تلخ تجربے کا غماز ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ گاندھی جی 70 فیصد نہایت زیرک سیاست دان تھے۔ 15 فیصد مہاتما تھے اور باقی 15 فیصد محض ڈھونگ، لیکن دنیا کے اکثر صحافی ان کے اس قدر مداح تھے کہ انھوں نے ان کا نام دنیا کے ہر گوشے میں اچھال رکھا تھا۔ ہمارے جاننے والی لیگ کی ایک مقتدرہ خاتون جب یورپ گئیں تو واپسی پر کہنے لگیں کہ یوگوسلاویہ کے دیہات میں سے گزر رہی تھی کہ لوگوں نے پہچان کر کہ ہندوستان سے آئی ہوں، گاندھی جی کے بارے میں استفسارات کیے۔ گاندھی جی کے سیاسی اسلحہ خانے میں ہتھیاروں کی کمی نہیں تھی۔ کسی سیاسی چال میں کام یاب ہو جاتے، تو سیاست دان ہوتے۔ ناکام رہتے تو مہاتما۔ پھر کبھی اعتراف گناہ، کبھی سچائیت کا برت ورنہ اکثر چپ۔
ویسے وہ عملی تحریکوں کا ڈول ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے تقریباً ہر 10 برس کے بعد ایک تحریک میدان میں اتاری اور جتنا قدم آگے بڑھا اسے اگلی تحریک تک مستحکم کرتے رہے۔ جنوبی افریقا سے آنے کے بعد پہلی تحریک میں جو خلافت ایجیٹیشن کے ایام میں چلی وہ دوسروں کے سہارے آگے بڑھی لیکن وہ اس سے جلدی دست بردار ہو گئے۔ اس لیے کہ انھیں اپنی قوم پرستی کی تحریک مسلمانوں کی بین الاقوامیت میں گم ہوتی دکھائی دی۔ بعد کی دو تحریکیں (1931 اور 1943 کی) انھیں کی پروردہ تھیں۔ ان تحریکوں سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنے عدم تشدد کو اپنے پیروکاروں کے تشدد کے سہارے آگے بڑھانا جانتے تھے۔ بہرکیف اس نیم براعظم کے اندر سیاسی بیداری پیدا کرنے میں ان کا بڑا گراں قدر حصہ ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ زندگی کے کاروبار میں وہ اتنے ہی کشادہ قلب تھے، جتنا کہ ایک ذات پات کا معترف ہندو ہو سکتا ہے۔
خود انھوں نے بارہا کہا کہ میری سوچ سراسر ہندوانہ ہے۔ جہاں تک ان کی مہاتمیت کا تعلق ہے وہ اپنے پرستاروں کے نزدیک مہاتما بدھ کے بعد سب سے بڑے انسان تھے۔ اس لیے یہ امر باعث تعجب نہیں کہ ان کی زندگی میں ان کی مورتی کی پوجا شروع ہو چکی تھی۔