’’کسی ملک کی معیشت کے استحکام، پھیلاؤ اور توانائی کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کے امیر کتنے امیر ہیں، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ غریب کتنے غریب ہیں۔
کسی معاشرے کے مہذب اور فلاح یافتہ ہونے کو پرکھنے کی محک اور کسوٹی یہ ہے کہ وہ اپنے کم زور، پیچھے رہ جانے والے، دکھی اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک ہماری قوم کا یہ بچھڑا اور پچھڑا ہوا طبقہ آگے نہیں بڑھتا، ہمارا معاشرہ آنکھوں پر بے حسی کے کھوپے چڑھائے خود ساختہ اندھیرے میں بھٹکتا اور دوسروں کو بھٹکاتا پھرے گا۔
ایک افریقی مثل ہے کہ جنگل میں ہاتھیوں کے جھنڈ کی رفتار کا تعین سب سے تیز دوڑنے والا ہاتھی نہیں کرتا، بلکہ سب سے سست قدم اور لدھڑ ہاتھی کرتا ہے!‘‘
(اردو عظیم مزاح نگار اور ادیب مشتاق احمد یوسفی کی فکر سے ایک پارہ)