اتوار, مئی 12, 2024
اشتہار

نازلی رفیعہ سلطان اور سیرِ یورپ

اشتہار

حیرت انگیز

بیسویں صدی اردو سفر نامہ نگاری کے اعتبار سے ایک اہم صدی مانی جاتی ہے جس میں بہت سے عمدہ اور بامقصد سفر نامے لکھے گئے۔

ہندوستانی ادیبوں اور ممتاز شخصیات نے اپنے وطن کو چھوڑ کر دور دراز کے ممالک کی خاک چھانی۔ ان سفر نامہ نگاروں نے دوسرے ممالک کی رسموں، رواجوں کے علاوہ اس دور کی ٹیکنالوجی سے متعلق اپنے تجربات ان سفرناموں میں محفوظ کیے۔ سر سید، شبلی اور آزاد نے بھی اسی صدی میں سفر کیا۔ لیکن اردو سفر نامہ نگاری کا باضابطہ آغاز یوسف خان کمبل پوش کے ہاتھوں ہوتا ہے جنہوں نے سفر نامہ عجائباتِ فرہنگ (تاریخِ یوسفی ) لکھ کر اس صنف میں اپنا نام سر فہرست کیا۔ اور یہ انیسویں صدی میں‌ ہوا، اس کے بعد متعدد ادیبوں نے دور دراز کے سفر کیے اور سفر نامے لکھے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے اردو زبان میں سفر نامے لکھنے والوں میں‌ حضرات کے ساتھ خواتین قلم کار بھی شامل ہوگئیں۔ اس دور میں مغربی سیاحت کو خاص اہمیت دی جانے لگی۔ اس ضمن میں انور سدید لکھتے ہیں:

’’اس دور میں ہندوستان میں انگریزی حکومت نہ صرف مستحکم ہوچکی تھی بلکہ اس کے خلاف ردِ عمل کی تحریکوں نے بھی سَر ابھارنا شرع کر دیا تھا۔ غلامی کے اس احساس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے علمی افلاس کو دور کرنے کے لیے مغرب کے علمی خزانوں تک براہِ راست رسائی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ چنانچہ بیرونی ممالک کے اسفار کو اس دور میں خصوصی اہمیت حاصل ہوئی اور دورانِ سفر جو تجربات حاصل ہوتے ان میں ابنائے وطن کو شریک کرنے کی کاوش بھی کی جاتی۔‘‘

- Advertisement -

بیسویں صدی تغیرِ زمانہ کے اعتبار سے اہم صدی رہی ہے۔ ایک طرف پوری دنیا دو عظیم جنگوں سے جھلس گئی، وہیں دوسری طرف ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی یہ دور خاصہ تبدیلی کا رہا۔

ٹیکنالوجی اور جدید وسائل کی مدد سے سفر کے طریقے آسان ہونے کے ساتھ ہی دل چسپ بھی ہو گئے۔ اس طرح ہر ادیب میں سفر کی خواہش پیدا ہونے لگی بالخصوص مشرقی قلم کار مغرب کی سرزمین کی سیر کو باعثِ فخر محسوس کرنے لگے۔ یہ سیّاح مغربی دنیا کے حیرت انگیز تجربات اور ایجادات کو فخریہ الفاظ میں تحریر کرنے کو بھی اپنی شان سمجھتے تھے۔ اس دوران نہ صرف مردوں نے دور دراز کے سفر کیے بلکہ عورتوں نے بھی گھروں کی دہلیزوں سے باہر قدم رکھ کر دوسرے مقامات جا کر وہاں کے حالات و واقعات قلم بند کیے۔

بیسویں صدی کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار نازلی رفیعہ سلطان ہیں جنہیں اردو ادب میں پہلی سفر نامہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے یورپ کا سفر کر کے یہ ثابت کیا کہ عورت بھی ایک اچھا ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا سفر نامہ نگار بھی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے سیرِ یورپ لکھ کر اردو میں پہلا سفر نامہ تحریر کیا۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اردو سفر نامہ نگاری کے ارتقاء میں خواتین سفر نامہ نگاروں کا اہم کردار ہے۔

نازلی رفیعہ سلطان صرف بیسویں صدی کی ہی نہیں بلکہ اردو ادب کی بھی پہلی سفر نامہ نگار ہیں۔ انھوں نے اس زمانے میں یورپ کا سفر کیا جب عورت کا گھر سے نکلنا باعثِ‌ تعجب تھا۔ اس ضمن میں سعد احمد یوں رقم طراز ہیں:

’’اردو سفر نامے کے ارتقاء کو تیز تر کرنے میں بیسویں صدی کے نصف اوّل کی خواتین سفر نامہ نگاروں نے اہم کارنامہ انجام دیا۔ اردو کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار ہونے کا شرف نازلی رفیعہ سلطان کو حاصل ہے۔‘‘

رفیعہ سلطان نے سفر نامہ ’سیرِ یورپ‘ کو خطوط کی تکنیک میں تحریر کیا تھا۔ دورانِ سفر انہوں نے جو خطوط اپنے بزرگوں کو لکھے تھے، بعد میں ان خطوط کو ترتیب دے کر سفر نامہ مرتب کیا۔ مصنفہ خود اس سفر نامے کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’اس میں نہ عبارت ہے نہ قافیہ پیمائی۔ صاف سیدھی عبارت ہے، وہاں کے حالات، طرزِ معاشرت، تدبیرُ المنازل، بعض امورِ سیاسیہ، تجارت، ہنروری، اقسامِ فنون کی کثرت۔ تہذیب، طریقۂ تعلیم، دربار کے آداب، جو میں جتنا سمجھ سکی اپنی زبان میں اپنے اہلِ وطن کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نسبتاً جب یورپ اور ایشیا کو دیکھتی ہوں تو اپنی نظروں میں تھوڑی تھوڑی ہو جاتی ہوں۔‘‘

اس سفر نامے میں انھوں نے یورپی ترقی سے متاثر ہوکر جو خطوط لکھے تھے ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یورپ کے گن گائے جائیں بلکہ وہ اس ترقی سے اپنے ہم وطنوں کو ترقی کا راستہ دکھانا چاہتی تھیں۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستانی تعلیمی اور معاشی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں۔ اس طرح ان خطوط کی وجہ سے مصنفہ نے اپنے ہم وطنوں کو یورپ کی سیر کرائی، انھیں یورپی صنعتی اور تمدنی ترقی سے روشناس کرایا۔ جس دور میں سفر نامہ ’ سیرِ یورپ‘ رفیعہ سلطان بیگم نے تحریر کیا تھا اسی دور میں عطیہ فیضی نے سفر نامہ ’زمانہ تحصیل‘ لکھا اور شاہ بانو نے سفر نامہ ’سیاحتِ سلطانی‘ تحریر کیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں