منگل, فروری 11, 2025
اشتہار

امین نواز کا تذکرہ جنھوں نے مینا ناز کے قلمی نام سے شہرت پائی

اشتہار

حیرت انگیز

اردو دنیا میں جن ناول نگاروں نے قلمی نام اپنا کر اپنی کہانیوں کو شایع کروایا اور مقبول ہوئے، ان میں مینا ناز بھی شامل ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مینا ناز ہی نہیں کئی پاپولر ادب یا ڈائجسٹ کے لیے لکھنے والوں نے خود کو بطور خاتون رائٹر متعارف کروایا اور کئی دہائیوں پہلے نہ صرف شہرت اور مقبولیت حاصل کی بلکہ اپنی اصل شناخت چھپانے میں بھی کام یاب رہے۔ قارئین کی اکثریت لاعلم ہی رہی کہ ان کا پسندیدہ ناول نگار مرد ہے۔

ڈاکٹر عبدالخلیل کشش کا ایک مضمون "ناول نگاری کے ارتقاء میں خواتین کا حصہ” کے عنوان سے بھارت میں دکن کے ایک روزنامہ میں شائع ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد، ناول نگاروں نے پروان چڑھایا ہے، وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آب یاری کی ہے۔ گو کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا ہے، پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس تحریر میں آگے انھوں نے چند خواتین ناول نگاروں کے نام لکھے ہیں، لیکن یہ فی الحقیقت خواتین نہیں تھیں۔ ان میں چند نام اُن مرد ناول نگاروں کے ہوسکتے ہیں جنھوں‌ نے اپنی شناخت چھپائی اور لیڈیز کمپارٹمنٹ میں سوار ہوکر اپنی منزل پر پہنچنے میں کام یاب ہوئے۔

پچھلی صدی میں‌ تقسیمِ ہند کے بعد چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو یہاں ایک طرف تو ادبِ عالیہ میں تانیثیت کو ایک اہم ادبی نظریے کے طور پر دیکھا جارہا تھا جس کے سروکار میں مختلف معاشروں میں، ہر سطح پر خواتین کا تشخص اور گوناگوں مسائل تھے اور دوسری طرف پاپولر ادب لکھنے والوں نے عورتوں کو اپنے ناولوں کے بھنور میں ایسا پھنسایا کہ وہ انہی کو اپنے درد کا درماں سمجھ بیٹھیں۔

ساٹھ کی دہائی میں جب خواتین رائٹرز کا بہت شہرہ ہو رہا تھا اور ان کے ناول بڑے شوق و انہماک سے پڑھے جاتے تھے، تو مینا ناز اور دیبا خانم نے بھی بڑا نام پایا۔ ان کے ناول ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ لیکن عام قارئین کی اکثریت اس بات سے لاعلم تھی کہ یہ دراصل مرد ناول نگار ہیں جنھوں نے بوجوہ اپنی شناخت چھپائی ہے۔ دیبا خانم تو تھے محی الدّین نواب جن کو کہانیوں کا دیوتا کہا جاسکتا ہے اور وہ ڈائجسٹ کی دنیا کے واقعی نواب تھے۔ مگر ہمارے ممدوح یہاں امین نواز ہیں جن کا شان دار قلمی سفر اور ذاتی زندگی کے دکھ اور المیے بھی آپ کی توجہ حاصل کر لیں گے۔ مینا ناز کے نام سے رومانوی، سماجی اور جذباتی ناول لکھنے والے امین نواز آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔

پیشے کے اعتبار سے امین نواز درزی تھے۔ تعلیم ان کی واجبی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں امین نواز نے بتایا تھا کہ وہ کم عمری میں نسیم حجازی کے ناول پڑھتے تھے اور انہی سے لکھنا سیکھا اور ناول نگاری کا شوق بھی ہوا۔ سلائی کا کام سیکھنے کے بعد وہ ایک دکان پر کام کرنے لگے۔ زنانہ کپڑے سیتے تھے اور شاید اسی پیشے نے ان کو خواتین کی فطرت، بعض عادات اور ان کے مختلف مسائل کو جاننے کا موقع فراہم کیا۔ خواتین کے جذبۂ حسد، رقابت، ان میں طوفانی محبت اور بے وفائی کو دیکھنے۔ 1963ء میں امین نواز کو اپنی شادی کے بعد ادبی مجلّوں اور رسائل کے مطالعہ کا موقع ملا۔ انھوں نے اس وقت رضیہ بٹ، بانو قدسیہ، دیبا خانم وغیرہم کی تحریریں بھی پڑھیں اور بڑے فکشن نگاروں اور ادیبوں کے ناول بھی۔ امین نواز نے پاپولر ادب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ 1963ء میں ان کا پہلا ناول ’’پربت‘‘ کا مسوّدہ تیار تھا اور اس کا موضوع پاکستانی عورت تھی۔ ناول کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو پبلشر نے مشورہ دیا کہ ان کو خاتون مصنّف کے طور پر یہ ناول شایع کروانا چاہیے۔ کیوں کہ پاکستانی عورتیں اس وقت جن مصنّفین کی کہانیوں کی گرفت میں ہیں، وہ سب خواتین ہیں اور ان کے درمیان شاید ایک مرد ناول نگار کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔

ناول نگار امین نواز کو بچپن سے لوگ پیار سے ’’مینا‘‘ پکارتے تھے۔ انھوں نے یہی نام اپنا لیا اور پبلشر نے انھیں ’’مینا ناز‘‘ کے طور پر متعارف کروایا۔ لاہور کے اس رائٹر کا ناول پربت قلمی نام سے شائع ہوا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ اس کے اگلے سال ہی میناز ناز کا ناول ’’طرزِ آشنائی‘‘ اور دیگر چار ناول شائع ہوئے۔ اب امین نواز نے درزی کا کام ترک کر کے لکھنے کو مستقل پیشہ بنا لیا۔ وہ دن رات کہانیاں تخلیق کرتے اور کرداروں میں گم رہتے۔ 1965ء میں مینا ناز کو کراچی سے پبلشرز نے پیشکش کی تو وہ ان کے ساتھ جڑ گئے مگر کئی ناول تحریر کرنے کے بعد لاہور لوٹ گئے۔ وہاں ذوالقرنین چیمبرز گنپت روڈ پر اپنا آفس بنایا اور بک پیلس کے نام سے اپنا ادارہ قائم کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ پبلشرز انھیں کم معاوضہ دے رہے ہیں اور خوب منافع کمانے کے باوجود ان کا حق نہیں دینا چاہتے۔ ادارہ قائم کرکے انھوں نے ہر ماہ دو نئے ناول شائع کرنا شروع کیے۔ آٹھ سو سے زائد ناول اسی ادارے سے شائع ہوئے اور مینا ناز عورتوں کی کہانیوں کو اردگرد بکھرے ہوئے کرداروں کے ساتھ پیش کرتے رہے۔ کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان ناولوں کا لکھنے والا ایک مرد ہے۔ مینا ناز نے اپنی شخصیت کو کبھی بے نقاب نہیں کیا۔ وہ کاروبار اور منافع کو اہمیت دیتے رہے۔ 80ء کی دہائی تک ان کا کاروبار خوب چمکا اور ناول خوب خوب فروخت ہوئے۔ مگر بعد میں حالات بدلتے چلے گئے اور مینا ناز نے 2005ء میں اشاعتی ادارے کو ختم کر دیا۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کی ناگہانی موت کے بعد نہایت شکستہ تھے۔ کچھ عرصہ تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے لیکن یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکا۔

امین نواز المعروف مینا ناز کے مقبول ناولوں میں سپنے میرے اپنے، پیاس، دو سکھیاں، روگی، طلاق، ہرے کانچ کی چوڑیاں، یہ گلیاں یہ چوبارے، درد آئے گا دبے پاؤں، بازار اور کئی کہانیاں شامل ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں