تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

"یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

جب مرض بہت پرانا ہو جائے اور صحت یابی کی کوئی امید باقی نہ رہے تو زندگی کی تمام مسرتیں محدود ہو کر بس یہیں تک رہ جاتی ہیں کہ چارپائی کے سرہانے میز پر جو انگور کا خوشا رکھا ہے اس کے چند دانے کھا لیے، مہینے دو مہینے کے بعد کوٹھے پر غسل کر لیا یا گاہے گاہے ناخن ترشوا لیے۔

مجھے کالج کا مرض لاحق ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔ شباب کا رنگین زمانہ امتحانوں میں جوابات لکھتے لکھتے گزر گیا۔ اور اب زندگی کے جو دو چار دن باقی ہیں وہ سوالات مرتب کرتے کرتے گزر جائیں گے۔ ایم اے کا امتحان گویا مرض کا بحران تھا۔

یقین تھا کہ اس کے بعد یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے۔ سو مرض تو بدستور باقی ہے اور ہم… ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں۔

طالب علمی کا زمانہ بے فکری کا زمانہ تھا۔ نرم نرم گدیلوں پر گزرا، گویا بستر عیش پر دراز تھا۔ اب تو صاحبِ فراش ہوں۔ اب عیش صرف اس قدر نصیب ہے کہ انگور کھا لیا۔ غسل کر لیا۔ ناخن ترشوا لیے۔ تمام تگ و دو لائبریری کے ایک کمرے اور اسٹاف کے ایک ڈربے تک محدود ہے اور دونوں کے عین درمیان کا ہر موڑ ایک کمین گاہ معلوم ہوتا ہے۔

(پطرس بخاری کے مضمون "اب اور تب” سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -