خالق داد امید
تمہید: ہیئت اور مافیہا
عموماً جب کسی افسانے یا ناول میں راوی بہ طور غائب متکلم (تھرڈ پرسن نریٹر) اپنے کرداروں کے متعلق لکھتا ہے کہ کردار اول نے ’’یہ کہا۰۰۰ ‘‘ ، ’’کردار دوم چل کر کردار اول تک آیا۰۰۰ دونوں کردار ایک دوسرے کو گھورنے لگے۰۰۰‘‘ تو ہم منظر میں راوی کی موجودگی کو ہمیشہ قبول کرتے ہیں۔ پس منظر اور تناظر کے کسی اختصاص کے بغیر کہ کون کہاں سے بول رہا ہے اور یہ بیان کیسے ممکن ہے، مگر جب راوی کہتا ہے کہ کردار دوم نے اپنی کن پٹی کے اوپر کے سفید بالوں میں انگلیاں پھیریں اور سوچا کہ ’’مجھے اس کو سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے۔‘‘ تو ہمیں دھچکا لگتا ہے کہ راوی کی منظر میں سماعت اور بصارت کی ہر حد تک موجودگی برحق، مگر کردار کے ذہن میں داخل ہو کر اس کی سوچ کو بیان کرنا کس قدر ممکن اور درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں ہے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کسی کردار کی سوچ کو عمل سے قبل یا عمل کے بغیر بیان یا ظاہر کرنے کی ضرورت کا کیا کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیان کا صیغہ واحد متکلم (فرسٹ پرسن نریشن) رکھا جائے اور کردار کے منہ سے اس کی ذہنی حالت بیان کی جائے۔ چناں چہ روﻻک کے بیانیے کے لیے فرسٹ پرسن نریشن کی تکنیک کے انتخاب کا رفاقت حیات کا فیصلہ اس لیے احسن سجھتا ہوں کہ مرکزی کردار قادر بخش کی بیتی دراصل اس کے وجود سے بڑھ کر اس کے ذہن پر بیتی ہے۔
بیانیہ تکنیک کے انتخاب کے اس درست فیصلے نے ناول میں موجود بہت سی خوبیوں کو سہارا دیا ہے، کچھ خوبیاں پیدا کی ہیں اور بہت سی ممکنہ خامیوں کا راستہ روکا ہے۔ گو کہ اس فیصلے کی وجہ سے کچھ کمیاں اور کمزوریاں بھی ناول کا حصہ بنی ہیں؛ جیسا کہ خواتین کرداروں کا کہانی میں ان کی لازمی اور اہم ترین موجودگی کے باوجود بھرپور طور پر نہ ابھر سکنا (یہ خواتین کردار نہ صرف اس ناول کے مرکزی خیال دو رولاک باپ بیٹے کی نفسیاتی اور وجودی کشمکش کی ضرورت تھی، بلکہ بہ ظاہر خواتین کرداروں کی بے جا کثرت بہ غور دیکھنے سے اس کہانی کی پیداوار اور پلاٹ کا ﻻزمہ نظر آتی ہے)۔ مگر یہ وہ کمی ہے جو کوئی بھی طریقہ کار اپناتے ہوئے در آ سکتی ہے، کیوں کہ محض طریقہ کار بدلنے سے کمیاں بھی دوسری شکل میں ظاہر ہو جاتی ہیں، یعنی یہ کمیاں جس بھی طریقہ کار میں ظاہر ہوں، یہ اُسی طریقہ کار کی محدودیت پر دلیل بن جاتی ہیں۔ سو اس واحد متکلم بیانیے کی تکنیک کے انتخاب سے مکمل اتفاق اور اس انتخاب کی وجہ سے در آنے والی مخصوص محدودیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، میں صرف مصنف کے اس بیانیہ تکنیک کے استعمال کے طریقے اور غیر مناسب وسعتِ استعمال کا جائزہ لینا چاہتا ہوں اور اس میں موجود ان خامیوں کو سمجھنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے میرے خیال میں اس ناول کے متن کو بے تحاشا نقصان پہنچا۔
ناول لکھنا بے شک ’ﻻمحدود کا انتخاب‘ اور ’آزادی‘ ہے۔ اگر کسی کو اس سلسلے میں مجھ سے اتفاق ہے اور اس اتفاق کی وجہ میرا مندرجہ باﻻ جملہ ہے تو میں اس جملے کے پیراڈاکس سے بات آگے بڑھاؤں گا۔ یاد رہے اس جملے کی صحت سے مجھے اتفاق ہے اور میں مصنف کی ’لامحدود انتخاب کی آزادی‘ کا قائل ہوں۔ مگر اس جملے کے دو اہم الفاظ ’ﻻمحدود‘ اور ’آزادی‘ جس معنوی نتیجے پر لے جاتے ہیں، تیسرا اہم لفظ ’انتخاب‘ اس لامحدود کو کسی نہ کسی منتخب حد میں محدود، اور آزاد کو کسی نہ کسی صورت میں پابند کر کے ایک پیراڈاکس تشکیل دیتا ہے – کہ یہ ﻻمحدود سے مصنف کا منتخب استفادہ ہے جو کہ بہر حال محدود ہے۔ یوں، مصنف جب اپنی ﻻمحدود آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادیوں کا انتخاب کرتا ہے جیسا کہ مرکزی خیال، کہانی، کردار، زمان و مکان (عصر اور لوکیل)، بیانیہ اور تناظر وغیرہ، تو یہ لامحدود ایک منتخب پلاٹ تک محدود ہو جاتا ہے۔ اس حد کا انتخاب مصنف کی استطاعت، صوابدید بلکہ ضرورت کے سبب ہوتا ہے نہ کہ قاری، ناول کی صنف یا انتقاد کے کسی مدرسہ فکر (اسکول آف تھاٹ) کے سبب۔ یوں مصنف کا یہ انتخاب اس کی آزادی پر حد لگا کر قاری کو آزادی دیتا ہے کہ وہ مصنف کے انتخاب پر سوال اٹھائے۔ مصنف کے منتخب کردہ مافیہا (content) ’’کیا‘‘ جو کہ اس کے تخیل کی پیداوار – مرکزی خیال، کہانی _ ہے اور مصنف کے مخصوص تکنیک کے ذریعے پیدا کردہ ہیئت (form) کے ’’کیسے‘‘ اس تخیل، کہانی، مافیہا کو بیان کیا جا رہا ہے، پر سوالات اٹھانا ہی تنقیدی عمل کے تاریخی تسلسل میں ان گنت تغیرات کے درمیان مرکزی، مستقل، مستند اور آزمودہ (tested) طریقہ کار ہے۔
جب ہم ناول روﻻک میں مافیہا ’’کیا‘‘ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک آوارہ باپ بیٹے کی کہانی ہے جو کہ باپ کی جانب سے آپس میں ملتے جلتے چند جنسی واقعات اور بیٹے کو ان سے دور رکھنے کی کوشش پر مشتمل ہے، اور اس کے بیان کے لیے صیغہ واحد متکلم کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک ہیئت ترتیب دی گئی ہے۔ اب مافیہا ’’کیا‘‘ کے حوالے سے یہ ایک حقیقت پسند content ہے، جس کے کردار، واقعات اور لوکیل وغیرہ سے حقیقت کی عکاسی ہو رہی ہے۔ مگر ایک کمزوری ضرور بہ طور سوال ابھرتی ہے کہ اس کہانی کا مافیہا ناول اور اس قدر ضخیم ناول کے تقاضے پورے کرتا ہے؟ اس کا جواب ہیئت (بیانیہ تکنیک) کی مدد سے دیا گیا ہے اور بھرپور دیا گیا ہے۔ یوں ایک انتہائی سیدھے سادے، واضح اور محدود حقیقت پسند مافیہا (content) کو غیر ضروری طور پر وسیع، پیچیدہ، جادوئی اور قطعی طور پر غیر حقیقت پسند ہیئت (form) میں پیش کیا گیا ہے۔ یعنی مافیہا کی حقیقت پسندی کو ہیئت کی حقیقت نگاری کی جس ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی، اس کے بر خلاف ہیئت ترتیب دی گئی ہے۔ یوں جب یہ متن اس کے بیانیہ تکنیک کی مدد سے تشکیل دی گئی ہیئت کے اکلوتے ستون پر کھڑا ہے، تو اس کا جائزہ بھی ہیئت (بیانیہ تکنیک) کی روشنی میں لیا جائے گا۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ہم یہ جائزہ لیں کیوں کہ اس متن کی حقیقت پسندی اور دیگر خوبیاں اور خامیاں، اس کی ہیئت کی جانچ ہی سے بہتر اور درست طور پر ظاہر ہو سکیں گی۔ مگر اس بیانیہ تکنیک کے سقم (ہیئت) پر گفتگو سے قبل اس طویل متن کو لے کر چند دیگر مسائل پر گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مسئلہ اوّل: ’’ﻻلی‘‘
صفحہ 101 پر راوی کہتا ہے کہ ’’ﻻلی کو ہماری گلی کا رخ کیے دو سے زاٸد ہفتے گزر چکے تھے۔‘‘
صفحہ 102 پر راوی کہتا ہے کہ ’’ﻻلی سے پہلی ملاقات کے بعد بابا پر اگلی تین شامیں بہت بھاری گزری تھیں۔۔۔‘‘
صفحہ 103 پر راوی کہتا ہے کہ ’’چوتھے روز دوپہر کے کھانے کے بعد بابا قیلولہ کرنے کے بجائے گھر سے نکل گئے۔‘‘
صفحہ 104 پر راوی چوتھے روز کی اگلی صبح، دوپہر سے قبل ’’ﻻلی کے دروازے پر دستک‘‘ کی بات کرتا ہے۔ یعنی ﻻلی دو ہفتے سے زائد گلی کا رخ بھی نہیں کرتی اور پانچویں دن کھل کر کھیلنے کے لیے قادر بخش کی گلی بلکہ گھر کے کمرے میں موجود بھی ہے۔ اکثر قارئین اس غلطی کو نظر انداز کرنے میں تحمل نہیں کریں گے، اور میں بھی فکشن میں وقت کے حوالے سے اس طرح کی غلطیوں کی کثرت سے موجودگی کو قبول (Admit) کرتا ہوں۔ مگر جہاں تک رولاک کی بات ہے تو اس متن کو جتنے ماہرین نے دیکھا، اس کے بعد اس طرح کی غلطی کو بدقسمتی سمجھتا ہوں اور خوف زدہ ہوں کہ یہ غلطی تینوں اشاعتوں (امریکا، ہندوستان اور پاکستان) میں آ گئی ہوگی۔
مسئلہ دوم: بے چینی، عدم اطمینان اور نیند
صفحہ 178 پر ایک دن کی طویل تفصیل میں راوی اس روز اپنی بے چینی بڑھتی چلی جانے اور ختم نہ ہو سکنے، خود کو اطمینان دﻻنے کی کوشش میں ناکامی کا ذکر کرنے کے بعد صفحہ 179 پر اُسی روز ’’ایسا خوش گوار دن میری زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا‘‘ کو بیانیہ کا حصہ بنا کر چونکاتا ہے۔ پھر اسی سطر میں ’’جس کا آغاز اس قدر سہانا ہوا۰۰۰ دوپہر تک خوار پھرنا اب میرا مقدر تھا‘‘، کا بیان دے کر قاری کو یہ معنی لینے اور بیانیے سے ہم آہنگ رہنے کی راہ سجھاتا ہے کہ صبح بے شک خوش گوار تھی مگر پھر دن بھر بے چینی اور بے اطمینانی رہی۔ مگر اسی دن اسکول سے واپسی کے وقت گھر پہنچ کر گرم کھانا کھاتے ہی ’’جماہیوں سے میرا منہ پھٹنے لگا اور اپنی چارپائی پر گہری نیند سو گیا۔ اس دن کی آوارگی اور تعاقب نے اتنا مزا دیا کہ میں شام ڈھلنے تک خوابوں میں کھویا رہا۔ اس دوران اماں نے بار بار مجھے جگانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ مغرب کے تھوڑی دیر بعد جب بابا واپس گھر آئے تو انھوں نے مجھے جگایا۔‘‘ کا بیان پڑھ کر قاری حیران رہ جاتا ہے کہ بے چینی اور عدم اطمینان کہاں گیا۔ 669 صفحات کے طویل متن میں کئی بار سونے جاگنے کا ذکر ہے لیکن کسی کردار کی اس قدر گہری (دن کے وقت) نیند کا ذکر اس قدر تفصیل اور شدت سے ایک بار ہی کیا گیا، اور اس کردار کی اس گہری نیند کے لیے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا گیا جو کہ اس کے لیے بڑھتی چلی جانے اور ختم نہ ہونے والی بے چینی اور عدم اطمینان کا دن تھا۔
مسئلہ سوم: تجسس کا قتل
اس ناول کے بیانیہ تکنیک کو صیغہ واحد متکلم کے درست ٹریک پر ڈالنے اور قارٸین کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کے لیے راوی کی طرف سے پہلے دو صفحات (جو کہ اس ماجرے کا پہلا اور آخری منظر ہے) میں ہی مرکزی کردار قادر بخش کے کہانی کے آخری لمحے تک زندہ رہنے کی نوید، بعد میں باپ بیٹے کی رقابت میں شدت اور قتل کے المیے سے قبل، قادر بخش کی جانب سے باپ کا پیچھا کرنے کے دوران کے تجسس کو بالکل کم کر دیتا ہے۔ سنسنی کے ان لمحات میں مصنف کا زورِ قلم قاری کو معلوم نتیجے (کہ باپ قتل ہوگا یا کم از کم قادر بخش کو کچھ نہیں ہوگا) کے مقابل بہت کمزور محسوس ہوتا ہے۔ اور میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ قادر بخش کے زندہ رہنے کے مکمل یقین نے میرے تجسس کو بہت نقصان پہنچایا اور ناول کو بھی تجسس، سنسنی کے حوالے سے بہرحال فرق پڑا۔ میں پھر واضح کر دوں کہ اس بیانیہ تکنیک کے طریقہ استعمال کی کمزوریاں اور خامیاں سمجھنا میرا مقصود ہے اور میں تجسس اور سنسنی کی اس کمی کو خامی نہ سہی ایک کمزوری ضرور سمجھتا ہوں۔ اب یہ اس تکنیک کی لازمی محدودیت ہے جو کہ مصنف کے آڑے آئی ہے یا اس بیانیہ تکنیک کے مصنف کے طریقہ استعمال میں خامی ہے، اس مشکل سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں؛ کہ میں تو کسی بھی طرح مذکورہ تجسس کی موجودگی کا متمنی ہوں اور اس کی غیر موجودگی سے ناول کی صحت کو پہنچنے والے نقصان پر رنجیدہ ہوں۔
مسئلہ چہارم: حقیقت پسندی
جس حقیقت پسند روش کا ذکر رولاک کی اشاعت سے قبل اور بعد از اشاعت کثرت سے مذکور ہے اور جس کی اس ناول میں موجودگی اور معیاری موجودگی کو محترم محمد سلیم الرحمٰن صاحب نے ’’جدت کے نام پر قلابازیوں‘‘ کے مقابل ’’حقیقت پسندی کے بڑے دم خم‘‘ کے ثبوت کی صورت دریافت کیا ہے، اس سے میں ایک سطح پر اتفاق کرتا ہوں کہ کہانی کے مرکزی خیال، کرداوں، واقعات یعنی مافیہا (content) میں اس کا اہتمام ہے۔ مگر بیانیے (ہیئت/فارم) میں ناول کے لوکیل کی پوری منظر کشی ہو، جزئیات نگاری ہو، قادر بخش کی نفسیاتی حالت کا بیان ہو، اس کا فیمنسٹ اور طبقاتی شعور ہو، ہر جگہ اور کثرت سے غیر حقیقت پسند، فلسفیانہ خیال طرازی ہے۔ بلکہ کہیں کہیں اعلیٰ درجے کا شاعرانہ تخیل متحرک ہے اور اس بیانیے کا بنیادی محرک ہے۔ یعنی یہ بیانیہ (ہیئت) اس کہانی، سچویشنز، قادر بخش کے تجربات و احساسات، نفسیاتی حالت، علم، شخصیت اور دانش کا لازمہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ غالب طور پر مصنف کے علم، نقط نظر، افکار، نظریاتی وابستگی اور کہیں کہیں شاعری کے شوق کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ پانچ سالہ بچے کا علم یا تئیس سالہ قیدی کی یادداشت کا قضیہ بھی اس ناول کے حقیقت پسند امیج (دعویٰ) پر بڑا سوال ہے۔
حقیقت پسندی سے ایک سطح اور غالب سطح (بیانیہ/ہیئت) پر اس متن کی دوری یا تضاد پر میری فکر مندی (concern)، حقیقت پسندی سے میرے کسی نظریاتی اتفاق یا اختلاف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس سلسلے میں میری رائے ہے کہ کیا فکشن کو ’’فکشناٸز‘‘ کیے بغیر کوئی چارہ ہے؟ یا فکشن کو جدت (ارتقا کے تقاضے) کے ’عفریت‘ سے محفوظ رکھنا ممکن ہے؟ اسی طرح حقیقت سے جڑت کی ایک گہری سطح کے بغیر فکشن ممکن ہے یا کم از کم اسے دوام ہے؟ تو صرف حقیقت پسندی اور صرف جدت پر زور کیسا؟ بہرحال میں بیانیے کے مصنف کے طرز یا اسلوب میں جو سقم دیکھ رہا ہوں اور اس کے برے اثرات پورے متن پر محسوس کر رہا ہوں، وہی حقیقت پسندی سے انحراف کا باعث بھی بن رہا ہے۔
میرا اس متن کو حقیقت پسندی سے انحراف کہنا شاید کچھ پڑھنے والوں کو نامناسب لگے اور انھیں اس متن کے چند اجزا میں حقیقت پسندی نظر آئے، تو ان کے لیے عرض ہے کہ مصنف جو کانٹینٹ لے کر آئے ہیں اس سے حقیقت پسندی جھلکتی ہے مگر اس کانٹینٹ کو جس ہیئت میں پیش کیا گیا ہے، جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ طریقہ حقیقت نگاری سے کوئی لگا نہیں کھاتا۔ کسی حقیقت پسند کانٹینٹ کو حقیقت نگاری کے ذریعے پیش کرنے میں مصنف پابند ہوتا ہے کہ مثالیت پسندی، رومانیت، عینیت، موضوعیت اور تعصب سے پرہیز کرے، خیالی باتوں سے گریز کرے اور ذاتی رائے کی آمیزش سے بچتے ہوئے خارجی حقائق کو معروضی صحت کے ساتھ بیان کرے۔ اب رولاک کے بیانیے کا گہرا تجزیہ کریں یا اچٹتی سی نظر ڈالیں، بہر صورت واضح ہوتا ہے کہ مصنف کے تعصب اور مداخلت نے کہانی کے خارجی حقائق کی معروضیت کو موضوعیت، مثالیت اور تصوراتی شاعرانہ لفاظیت کے طویل، غیر حقیقت پسند رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اور راوی قادر بخش اپنی ’’سمجھ بوجھ‘‘، فیمنسٹ، طبقاتی اور نفسیاتی علم اور فلسفیانہ تفکر پر حیران بیٹھا، راوی کی ذمہ داری مکمل طور پر مصنف پر چھوڑ چکا ہے۔ قادر بخش کی بہ طور راوی بس اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ مصنف کے بیان کردہ انتہائی باریک تفاصیل خصوصاً منظر نگاری کی جزئیات کی پانچ سال کی عمر سے شروع ہو کر تئیس سال کی عمر تک اپنے ذہن میں جادوئی صحت کے ساتھ موجودگی کو قبول کرے۔ باقی فیمنزم اور طبقاتی فلسفہ، انسانی نفسیات کا علم اور مشکل جذباتی حالات میں غیر حقیقی حد تک معروضیت کے لیے میں بہ طور قاری، راوی قادر بخش کو ذمہ دار نہیں سمجھتا، کہ یہ تمام اختیارات مصنف نے بہ طور واحد متکلم راوی کو دان ہی نہیں کیے۔ یہی راوی کے اختیارات سے مصنف کا استفادہ اس متن کا جادو، غیر حقیقت پسندی اور بڑی خامی ہے۔ مگر اس خامی کا بھی ایک منبع ہے۔ آئیے دونوں پر نظر ڈالیں۔
بیانیہ کا سقم
اوپر جن چار کمزوریوں کا بہ طور مسال ذکر کیا گیا ہے اور کچھ کی نشان دہی میں یہاں کرنا چاہتا ہوں؛ سب کی جڑیں اس بیانیہ تکنیک کے غلط اور بے جا استعمال میں پیوست ہیں۔ مگر پہلے اس بیانیے کی مرکزی خامی پر نگاہ کرتے ہیں جس کا میں نے اب تک براہ راست ذکر نہیں کیا ہے، اور جو بہ طور معلول پورے متن میں پھیلی ہوئی ہے۔ راوی جیل سے بائیس تئیس سال کی عمر میں یادداشت کی مدد سے ماضی میں پانچ سال کی عمر سے اپنا ماجرا اور اس پر تبصرہ شروع کرتا ہے اور ناول کی تکنیک چھوڑ کر بالکل فلم کی تکنیک میں، ماضی کو حال بنا کر مکمل تفصیل اور جزئیات کے ساتھ واقعات، مناظر دکھاتا اور ان پر تبصرہ کرتا ہے۔ فلم میں چوں کہ اس کی ویژول میڈیم تکنیک (بصری سہولتی طریقہ کار) کی وجہ سے ماضی کی کہانی سنانے کا یہی ممکنہ طریقہ ہے (اس طریقہ کار کی اپنی کمزوریاں اور محدودات ہیں جیسا کہ رولاک یعنی ناول کی طرح طویل بیانیہ اور صورت حال پر تبصرہ ممکن نہیں رہتا) مگر ناول کی تحریری تکنیک میں ایسا کرنے کے لیے راوی کو ﻻمحالہ ماضی میں جانا پڑتا ہے۔ اور جب اس غیر حقیقت پسندانہ بیانی طریقہ کار کے تحت راوی منظر میں تئیس سال کی عمر میں پانچ سالہ کردار کے کندھوں پر سوار ہو جاتا ہے تو یہ دکھانا اور تفصیل سے دکھانا آسان ہو جاتا ہے کہ کسی عام سی گلی کی غیر ضروری (کہانی کے لحاظ سے) بیکری نما دکان کا دروازہ کھلا ہے اور اس کے ساتھ والی دکان کا بند، شاہ کمال کے مزار سے نکلتی سڑک پر کون کون سی گدھا گاڑیاں، سوزوکیاں اور چکڑے سبزی منڈی کے آس پاس کھڑے ہیں اور کون سے ادھر ادھر رواں دواں، زمین پر کتے، بلیاں اور چوہے جب کہ آسمان پر چیلیں اور کوے منڈلا رہے ہیں، ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں ہرے رنگ کی چادر کے اوپر دو رجسٹر، ایک گلوب اور بازو جتنا، گول گول پیلے رنگ کا بید موجود ہے۔ اور منظر میں تئیس سال کی عمر میں موجودگی سے تبصرہ بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں راوی تئیس سال کی عمر میں جیل سے یادداشت کے بل بوتے پر یہ سب تفصیلات بیان کر رہا ہے اور ہیڈ ماسٹر کے کمرے اور گھر سے اسکول تک کے راستے میں پانچ سالہ قادر بخش کے ساتھ تئیس سالہ قادر بخش کی بہ طور راوی موجودگی میرے تخیل کی خُرافت ہے، تو میں اس یادداشت کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور اس بیانیے کو سائنس فکش بیانیہ کہوں گا۔
واضح رہے مصنف بہ ظاہر جیل سے راوی کی یادداشت کے سہارے ہمیں کہانی میں شریک کر رہا ہے مگر اس یاد کرنے کے عمل میں راوی بہ نفس نفیس ماضی کے منظر میں ٹائم مشین کے ذریعے پہنچ کر تئیس سال کی عمر میں ہم سے کہانی بیان کر رہا ہے اور اس پر اپنا میچور تبصرہ فرما رہا ہے۔ تکنیک بالکل فلم والی ہے یوں یہ سب کچھ قطعی غیر حقیقی، جادوئی اور نامناسب ہے۔
اگر بیانیے کا سقم اتنا ہی ہے تو اس تکنیک کو غیر حقیقت پسندانہ تو کہا جاسکتا ہے مگر یہ ان سب خامیوں کا باعث نہیں ہو سکتا جو کہ اس ناول میں موجود ہیں۔ اور کچھ کی طرف میں اشارے کر چکا ہوں۔ تو عرض ہے کہ یہ بیانیے کا سقم اور دیگر مسائل معلول (Effects) ہیں، علت (Cause) دراصل ایک طویل افسانے یا ’’میرواہ کی راتیں‘‘ (مصنف کا پچھلا ناولٹ) جتنے ماجرے کی استطاعت والے مافیہا (content) پر بیانیہ تکنیک کے ہیئتی زور سے ایک ضخیم ناول کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ رولاک ایک کردار کی کُل زندگی کا ماجرا ہے اور یہ کہانی اپنے مرکزی خیال میں ناول بننے کی متقاضی ہے تو میں اتفاق کرتا ہوں اور ساتھ ہی عرض رکھتا ہوں کہ ناول کے باب میں ناولٹ کے مختصر ترین متون سے ضخیم ترین ناولوں کی موجودگی اور طوالت کے حوالے سے فرق (Variation) اس بات پر (بلکہ اکثر ایک ہی مصنف کی جانب سے کبھی مختصر اور کبھی طویل ناول کی پیش کش) دلالت ہے کہ ہر کہانی، ماجرے کا باطن (چاہے یہ کہانی، ماجرا ناول لکھنے کے لیے کتنا ہی موزوں کیوں نہ ہو) واقعات، کرداروں کی تعداد، مصنف کے نقطہ نظر اور راوی کے تبصرے کی ایک خاص مقدار ہی کو سہار سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس متن میں غیر ضروری کردار اور غیر ضروری واقعات ڈالے گئے ہیں، ایسا بالکل نہیں کیا گیا ہے۔ مگر بیانیہ میں، مصنف کے نقطہ نظر کی پیش کش کی خاطر راوی مضمون بندی کی جتنی اور جیسی جادوگری کیے چلا جا رہا ہے کہانی، مافیہا اسے سہار نہیں پا رہا ہے۔ یہی بات ایک اور طرح سے عرض کرتا ہوں۔
کسی بھی کہانی کے مافیہا (content) کا ایک بنیادی کام معنی خیزی ہے، جب کہ ہیئت (Form) کا ایک بنیادی کام مضمون بندی ہے۔ یوں تخیل اور تکنیک، مافیہا اور ہیئت، معنی اور مضمون، کسی بھی اچھے خیال کی اچھی پیش کش کے لیے باہم ایک خاص توازن کا تقاضا کرتے ہیں۔ کوئی بھی مافیہا معنی خیزی کی ایک خاص گنجائش رکھتا ہے اور یہ گنجائش مصنف کو اس کی تکنیک کی مدد سے خود (معنی خیزی کی گنجائش) میں ایک محدود اور مناسب رد و بدل کی ہی اجازت دیتا ہے اور بدلے میں نقطہ نظر و تبصرے (بیانیہ) کی مضمون بندی کو اس حدِ معنی خیزی سے ہم آہنگ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یوں مصنف کے تخیل (مافیہا/معنی) اور تکنیک (ہیئت/مضمون) کے درمیاں ایک توازن تشکیل پاتا ہے۔ اب اگر اس توازن کا خیال نہ رکھا جاٸے اور ایک مخصوص مافیہا کے محدود معنی پر مصنف یا راوی کے نقطہ نظر، تبصرے (بیانیہ) کی مضمون بندی کا ﻻمحدود یا معنی سے کئی گنا بوجھ ڈال دیا جائے تو کیا ہوگا؟ یہی کچھ روﻻک کے ساتھ ہوا ہے۔
طوالتِ متن کی پتا نہیں کس ضرورت یا خواہش کے تحت مصنف یا راوی کے نقطہ نظر کو بیانیے میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ جس سے متن میں کمزوریوں کے علاوہ غلطیاں بھی در آئی ہیں جیسا کہ اوپر بیان کی گئی ’’ﻻلی‘‘ کے دو ہفتے کی غلطی، حقیقت پسند نہ رہتے ہوئے شاعرانہ تخیل کے بھرپور تحریک کی غلطی، بے چینی اور عدم اطمینان سے بھرپور دن میں لمبی، گہری اور بھرپور نیند کی غلطی وغیرہ۔
اس طوالتِ متن کی خواہش کو ایک اور زاویے سے دیکھیں۔ صفحہ 467 پر فٹبال کے ذکر میں، راوی ہوٹل میں بیٹھے ہوئے مکرانی نوجوانوں کی طرف سے ارجنٹینا اور برازیل کو فیورٹ قرار دینے کے ساتھ ’’اس بار میراڈونا ارجنٹینا کو چیمپئن بنوا دے گا‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ اس طرح کسی واقعے کا ذکر مرکزی ماجرے کے زمانے کو ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ ہے مگر یہاں چار مرتبہ ورلڈ کپ فائنلز کھیلنے واﻻ میراڈونا دو دفعہ 1986 اور 1990 میں اس حالت میں تھا کہ اپنے ملک کو چیمپئن بنوا سکے۔ اور دونوں دفعہ فائنلز کا فائنل کھیل کر ایک دفعہ چیمپئن بناتا بھی ہے۔ اب مندرجہ باﻻ جملے میں چیمپئن سے قبل، اس دفعہ بھی یا ایک دفعہ پھر کے الفاظ بڑھا کر گفتگو کے زمانے کو 1990 یا 1994 (میراڈونا کی آخری ورلڈ کپ فائنلز کی شرکت) تک بہ آسانی ﻻیا جاسکتا تھا۔ ایسا نہ کرنے سے معاملہ 1982 (میراڈونا کی پہلی ورلڈ کپ فائنلز شرکت) اور 1986 تک محدود ہو جاتا ہے۔ قادر بخش اس فٹبال کے ذکر کے وقت اپنے ماجرے کے اختتام (والد کے قتل) کے بہت قریب ہے اور والد سے اپنی آخری محبت (سومل) کے لیے برسر پیکار ہے۔ اب راوی نے جس زمانے کا تعین ہماری کہانی کو لے کر فٹ بال کے ذکر سے کر دیا ہے، اس کے مطابق قادر بخش کے پانچ سال کی عمر کا زمانہ 70 کی دہائی میں یقیناً جائے گا اور اگر راوی 1982 کے ورلڈ کپ کا ذکر کر رہا ہے تو یہ زمانہ 60 کی دہائی میں چلا جائے گا (میں قادر کے ماجرے کے آغاز کے لیے کم از کم دوسرے شہر کے ساڑھے تین سال اور اسکول کے دس سال ملا کر 14 سال پیچھے جاؤں گا)۔
اب اگر میرا کوئی قاری دوست اس زمانے کے تعین کے حوالے سے اس متن کو جانچے گا تو مسائل دریافت ہوں گے، جیسا کہ قادر بخش کے دانش کی نمو (Intellectual Development) کا مسئلہ۔ میرے خیال میں مختلف علوم اور نظریات کی دانش ورانہ حد تک سجھ بوجھ کا جو وزن مصنف نے بہ طور راوی قادر بخش پر ﻻد دیا ہے (اور اس کے حصول کے لیے پانچ سال سے بیس سال کی عمر تک صرف آوار گردی کو بہ طور دانش کدہ اور طریقہ کار -پراسس- اختیار کیا ہے) اس بوجھ سے نبرد آزما ہونے کے لیے قادر بخش کی زیست کے زمانے کا ماضی میں دور واقع ہونا نقصان دہ (unjustified) ہے۔ اس کے علاوہ بھی متن میں وسیع پیمانے پر ایسے ثبوت (منظر نگاری میں بازاروں کی حالت کا بیان، واقعات نگاری میں تعلیم بہ طور مجموعی اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم، سلاٸی کڑائی کے مراکز، نوجوان لڑکیوں کا رکھ رکھاؤ وغیرہ) موجود ہیں جس سے اس متن کا زمانہ بیسوی صدی کی آخری دہائی یا اکیسویں صدی کے ابتداٸی سال ظاہر ہوتا ہے۔ صرف فٹبال کا غیر ضروری ذکر ہے جو اس ماجرے کی ابتدا کو پیچھے بہت پیچھے شاید سقوطِ ڈھاکا سے قبل کے دور میں دکھیلتا ہے۔
ایک اور دل چسپ اور ناول کے لیے انتہائی نقصان دہ پہلو دیکھیے۔ اس متن کی ہیئت (بیانیہ تکنیک) غیر ضروری طور پر اتنی وسیع، مضبوط اور طاقت ور ہے (اور ایسا بھرپور کوشش سے کیا گیا ہے) کہ مرکزی کردار اور راوی قادر بخش کو کہانی، مافیہا نہیں متن کی ہیئت (بیانیہ تکنیک) قابو کیے ہوئے ہے، وہ بیانیہ جسے خود مافیہا اور خصوصاً راوی قادر بخش کے قابو میں ہونا چاہیے تھا۔ یوں یہ ہیئت (بیانیہ تکنیک) مصنف کے نقطہ نظر کے سوا کچھ نہیں، روای قادر بخش کی تو پورے متن میں بہ طور کردار ایسی کوئی نمو (Development) ہی نہیں ہوٸی جو اسے اس بیانیے کا بوجھ اٹھانے کے قابل کرتی۔
بس بیانیے پر مصنف کے نقطہ نظر کا یہ واضح پُر تعصب قبضہ ناول کی خوبیوں سے لڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور میری نظر میں یہ دست درازی اور موشگافی ناول کے کلائمکس حتمی نتیجے کو بھی دو انتہاٸی اہم حوالوں سے بری طرح متاثر (Dictate) کرتی ہے۔ اوّل قادر بخش کا اپنی ماں کے لیے ہمدردی، رغبت اور محبت محسوس نہ کرنا۔ باپ کے قتل اور خود کے جیل میں ہوتے ہوئے اس کمزور عورت پر ان شدید صدموں کے اثر کے بارے میں ایک بار بھی نہ سوچنا حالاں کہ ماں کا یہ کردار تو اس ناول کے محلِ وقوع، زمانے، اور سماج کے تلخ حقائق کا بہترین ترجمان ہے۔ اور مذکورہ سماج اور زمانے کے کسی کم پڑھے لکھے بیٹے کے لیے آئیڈیل، مگر مصنف کے فیمنسٹ کمٹمنٹ کا تعصب کردار قادر سے اس کی ڈیولپمنٹ کے برخلاف رویے کا اظہار کراتا ہے جو کہ انتہائی غیر حقیقی اور نامناسب ہے۔ دوم اسی طرح بہ آسانی اور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ باپ کا اس قدر بے دردی سے قتل اور خصوصاً عضو تناسل کاٹ کر دور پھینک دینا کہانی کے منطقی تقاضے اور کردار قادر بخش کے جذبات و احساسات کی ترجمانی سے بڑھ کر ہے اور مصنف کی فیمنسٹ فکر سے گہری وابستگی کی ترجمانی ہے۔ یوں یہ، کردار بیٹے کی طرف سے اپنے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس پر باپ کو سزا نہیں، مصنف کی طرف سے قادر بخش کے بابا کو خواتین سے اس کے طویل، مجموعی ہتک آمیز رویے کی سزا ہے اور اردو کے فیمنسٹ فکشن میں ایک سنگ میل۔
(مضمون نگار خالق داد امید پشتو کے شاعر اور نقاد ہیں۔ کسی اردو ناول پر ان کا یہ پہلا باقاعدہ تنقیدی مضمون ہے)