جمعرات, دسمبر 5, 2024
اشتہار

سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے … دالث شفشا یم…اس کے بعد تم قیمتی پتھر والی جگہ پر پہنچ جاؤ گے۔ ہاں واپس آنے کے لیے اس منتر کے آخر میں ایک اور لفظ بِٹ شامل کرنا ہوگا۔ جہاں سے جاؤ گے، واپسی بھی وہیں پر ہوگی۔ میرے خیال میں منتر تم لوگوں کو یاد ہو گیا ہوگا کیوں کہ یہ بہت آسان ہے۔”

- Advertisement -

"ہاں لیکن یہ بے حد عجیب اور اجنبی الفاظ ہیں۔” فیونا بولی۔

"یہ دراصل بادشاہ کیگان کے آبا و اجداد کی زبان میں لکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے سورج اور سمندر کی طرف دروازہ، اور بِٹ کا مطلب ہے گھر۔ ” اینگس نے کتاب بند کر کے جواب دیا۔ "یہ فونیزی الفاظ لگتے ہیں، پہلے میرا خیال تھا کہ یہ مشرقی یورپ یا روسی الفاظ جیسے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔”

جبران بولا۔ "ہوشیار ہو جاؤ سب، میں اس منتر کو آزما رہا ہوں، عین ممکن ہے کہ میں ہی ایک وارث ہوں۔” یہ کہ کر اس نے منتر پڑھا… دالث شفشا یم۔”

لیکن کچھ نہیں ہوا۔ فیونا کے منھ سے ہنسی نکل گئی۔

"میں تو مذاق کر رہا تھا۔” جبران جھینپ گیا۔ "مجھے پتا ہے کہ میں بادشاہ کیگان کا وارث بھلا کیسے ہو سکتا ہوں۔”

"یہ ایسے کام نہیں کرے گا۔ اس کے لیے تمھیں کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جانا پڑے گا۔ بغیر کسی تیاری، اور اکیلے۔” اینگس کہنے لگے۔ "مجھے پکا یقین ہے کہ میں ورثا میں سے نہیں ہوں۔ میں قلعہ آذر والوں کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے یہاں کی تاریخ بھی خاصی دل چسپ ہے۔” یہ کہ کر وہ اٹھے اور کتابوں کی طاق سے ایک کتاب کھینچ کر نکال لی۔ "یہ کتاب اس علاقے گیل ٹے کی تاریخ سے متعلق ہے، کتاب میں ذکر ہے کہ دو لڑکیاں قلعے میں آئی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بادشاہ کیگان کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے نام ازابیلا اور آنا تھے۔”

فیونا نے چونک کر کہا۔ "انکل میں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی لیکن میرا درمیانی نام ازابیلا اور میری ممی کا آنا ہے۔ یہ اتنا اہم تو محسوس نہیں ہوتا تھا، صرف ایک اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اب سوچ رہی ہوں کہ تو حیرت ہو رہی ہے کہ کیا ہم ان کے وارث ہیں۔ کیا کتاب میں اس حوالے سے کچھ بتایا گیا ہے؟”

اینگس نے بتایا "کتاب میں لکھا ہے کہ شہزادیوں کی جن مردوں سے شادی ہوئی تھی، وہ جھیل کے پار دوسرے کنارے والے گاؤں کے عام لوگ تھے۔”

فیونا اس بار بری طرح چونکی۔ "کیا اس سے مطلب اینوَر ڈروچٹ ہے؟ میری ممی وہیں سے تو ہیں۔”

"کتاب میں کسی خاص گاؤں کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ یہ دونوں خاندان بعد میں قلعے میں منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی نسلیں کئی صدیوں تک وہاں رہیں لیکن پھر برطانیہ کے ساتھ جنگ میں یہ قلعہ تباہ ہو گیا اور اسے پھر سے تعمیر نہیں کیا گیا۔ جو لوگ اس میں رہتے تھے وہ جھیل کے کنارے قریبی دیہات میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک وارث ہو۔” اینگس نے یہ کہ کر کتاب بند کر دی۔

"اوہ، یہ تو ایک زبردست بات ہو گئی ہے۔” جبران اچھل پڑا۔ "فیونا تم حقیقی وارث ہو، مجھے تو یہی محسوس ہو رہا ہے۔”

"کیا تم یہ منتر آزماؤ گی فیونا؟” دانیال نے اچانک اسے مخاطب کیا۔

"ٹھہرو۔” وہ تینوں اینگس کی بدلی ہوئی آواز پر ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ وہ اٹھے اور الماری کے ایک خانے سے نوٹوں کی گڈی نکال کر فیونا کی طرف بڑھے۔ "فرض کرو، منتر پڑھتے ہی تم غائب ہو گئی تو تمھیں رقم کی ضرورت ہوگی، اسے اپنے پاس رکھو۔ تم کسی بھی بینک سے متعلق ملک کی کرنسی تبدیل کر سکتی ہو۔” فیونا نے یہ سن کر لرزتے ہاتھوں کے ساتھ رقم کی گڈی لے کر جیب میں رکھ لی۔

"میری ممی کہتی ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد قلعے میں رہتے تھے۔ میں اس منتر کو آزمانا چاہتی ہوں، لیکن یہ معاملہ بہت خطرناک لگ رہا ہے۔ جبران، دانی، تم بھی آ کر میرے قریب کھڑے ہو جاؤ۔ اگر اس نے کام کیا تو میں اکیلے نہیں جانا چاہوں گی۔”

وہ دونوں فیونا کے کندھوں سے کندھے ملا کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا بڑبڑانے لگی… دالث شفشا یم…

اور پھر وہ ہوا جس کا ان میں سے کسی کو بھی یقین نہیں تھا، کیوں کہ ابھی تک اس عجیب و غریب کہانی پر وہ دل سے یقین نہیں کر پائے تھے۔ یکاک کمرا رنگ و نور سے بھر گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک رنگین دھواں تیزی سے کمرے میں پھیلنے لگا ہے۔ اس دھوئیں میں دھاتی نیلے، قرمزی سرخ، تیز سبز، گہرے ارغوانی، لیموں جیسے زرد اور نارنجی دائرے جھلملا رہے تھے۔

"انکل یہ کام کر رہا ہے، ہمارے ساتھ آپ بھی چلیں، جلدی کریں انکل۔” فیونا چلّا کر بولی۔

"میں نہیں آسکتا۔” اینگس نے کہا۔ "میں یہیں رکوں گا اور جادوئی گولے کی حفاظت کروں گا۔”

لیکن دیر ہو چکی تھی، جب تک اینگس کے منھ سے نکلے الفاظ ان تک پہنچ پاتے، ان کی آنکھوں کے سامنے کمرا کسی بگولے کی مانند تیزی سے گھومنے لگا۔ جب یہ بگولا رک گیا تو وہ حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگے۔

(جاری ہے….)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں