تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

اکتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

وہ بولی: "کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابھی میں نے ڈریگن کو تصور میں دیکھا اور ابھی یہ فوراً پہنچ بھی گیا، کیا یونان میں ڈریگن بھی ہوتے تھے؟”

"نہیں، حقیقت میں ڈریگن کہیں بھی نہیں ہیں۔” جبران نے جواب دیا۔ "یہ سب کچھ بہت عجیب سا ہے۔ یہ آیا کہاں سے؟”

"میرے خیال میں ڈریگن میرے تصور سے آیا ہے۔” فیونا نے عجیب بات کہہ دی۔ "میں نے اسے اپنے تصور میں دیکھا اور پھر اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ میرا خیال ہے کہ بادشاہ کیگان نے کچھ کیا ہوگا، یا شاید یہ اس کا جادوگر تھا۔” دانیال نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا: "ڈریگن کہیں سے بھی آیا ہو، بہرحال اس نے ہمیں اس بد شکل ہائیڈرا سے بچا لیا، چلو اب چلتے ہیں۔” تینوں باہر نکلے اور آسمان کی طرف منھ اٹھا کر دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ فیونا نے کہا: "مجھے یقین ہے ڈریگن یہاں کے لوگوں کو نظر ہی نہیں آیا ہوگا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا ہے کہ کسی کو توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔”

لیکن جب وہ قصبے سے گزرنے لگے تو انھوں نے کئی لوگوں کو آسمان کی طرف اشارے کرتے دیکھا۔ دانیال بولا: "تمھارا یقین ٹھیک نہیں، لوگوں نے اسے دیکھا۔” اور پھر وہ تینوں ہنسنے لگے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ کیا وہ دونوں بھی گھر واپسی کے لیے تیار ہیں، دونوں نے ایک ہی وقت میں جواب دیا: "ظاہر ہے۔”

"اگرچہ ہمارا یہ دن بہت خوفناک گزرا ہے تاہم بڑا مزا آیا، میں نے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔” دانیال نے تبصرہ کیا۔ جبران نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ میری زندگی کا بھی یادگار ترین دن ہے۔”

جب وہ ساحل پر اس مقام پر پہنچے جہاں سے وہ واپس اپنے گھر کے لیے جانے والے تھے، تو انھوں نے ساحل پر پانی میں بہت ساری کشتیوں کو دیکھا جو رسیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بندھی ہوئی تھیں۔ فیونا پرجوش ہو کر بولی: "ارے یہ تو "ڈولتا بازار” ہے۔ میں نے ایک دکان کی کھڑکی پر اس کا اشتہار چسپاں دیکھا تھا۔ ہفتے میں ایک دن اس جزیرے کے کسان اپنی اپنی چیزیں یہاں لا کر فروخت کرتے ہیں۔”

"یہ کشتیاں تو سبزیوں، پھلوں اور مچھلیوں سے بھری ہوئی ہیں، کتنا خوب صورت منظر ہے یہ۔ کاش میرے پاس کیمرا ہوتا تو میں ان سب کی تصاویر اتار لیتا۔ حتیٰ کہ خانقاہ اور بچھوؤں کی بھی۔” دانیال ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔

"میں تو ڈریگن کی تصویر لیتا لیکن اگر میں کسی سے ڈریگن کا ذکر کروں گا تو وہ بالکل یقین نہیں کرے گا۔” جبران نے چونک کر کہا۔

فیونا کہنے لگی: "کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ ہماری کسی بھی بات پر یقین کر لیں گے؟ کون یقین کرے گا کہ پتھروں میں جان آئی اور وہ ایک عفریت کی شکل میں تبدیل ہو گئے، اور پھر وہ ہمارے پیچھے دوڑنے لگا۔ کوئی نہیں کرے گا۔ لوگ ہمیں بے وقوف سمجھیں گے۔ اس لیے ہمیں یہ باتیں خود تک محدود رکھنی ہوں گی۔”

جبران نے اس سے اتفاق کیا۔ چلتے چلتے اس نے کہا: "اس سے پہلے کہ ہم واپس جائیں، اپنے انکل اینگس کے لیے یہاں سے کچھ میٹھا لے کر چلو، کیوں کہ وہ واحد آدمی ہے جنھیں پتا بھی ہے اور یقین بھی کرتے ہیں۔”

"گڈ آئیڈیا۔” فیونا خوش ہو گئی۔ "چلو دیکھتے ہیں کہ یہاں بیکری میں کیا ہے؟” وہ ایک بیکری میں داخل ہو گئے۔ شیشوں کے اندر مٹھائیاں موجود تھیں۔ جبران نے ایک کیک کی طرف اشارہ کیا: "یہ دیکھو، اسے یہاں کی زبان میں امیگدالوتا کہتے ہیں۔ میری ٹیچر نے کہا تھا کہ یہ بادام کا کیک ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ انکل اینگس کے لیے یہ چھوٹا سموسہ بھی خریدنا چاہیے۔ اسے یہاں کی زبان میں گیلکٹو بوریکو کہتے ہیں، دارچینی اور سیرپ کے ساتھ۔”

فیونا نے جبران کو مقامی کرنسی کے چند نوٹ دیتے ہوئے کہا: "ہمارے لیے بھی کچھ خرید لینا، میں باقی رقم برطانوی پاؤنڈز میں تبدیل کر کے آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور کچھ ہی دیر بعد واپس آ گئی۔

جبران نے سامان سے بھری تھیلی پکڑ لی اور وہ ساحل پر چلتے ہوئے کھانے لگے۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا نے کہا: "یہ ہے وہ جگہ جہاں سے ہماری واپسی ہونی ہے۔” انھوں نے قصبے کو آخری بار دیکھا، فیونا نے کہا مجھے ہائیڈرا بہت یاد آئے گا۔ جبران نے ساحل پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: "شکر ہے کہ پولیس اور ہائیڈرا کے تعاقب کے بعد بھی ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ میں اپنی ڈائری میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھوں گا۔”

فیونا نے کہا: "چلو، اب ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ جبران خیال رکھنا تھیلی گر نہ جائے۔”

فیونا نے دونوں کے ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے، ناک کی سیدھ میں نظریں جما دیں، اور منتر پڑھنے لگی: "دالث شفشا یم بِٹ۔”

اگلے لمحے انھیں لگا کہ آسمان سے بادل اتر کر ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا ہو۔ ان کے جبڑے سخت ہو گئے۔ ہاتھوں کی گرفت بھی مزید سخت ہو گئی۔ ذرا دیر بعد وہ صرف مختلف رنگوں ہی کو دیکھنے لگے۔ ان کے ارد گرد اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ساری دنیا انتہائی تیزی سے لٹو کی مانند گھوم رہی تھی۔ جب انھوں نے آنکھیں کھولیں تو خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

"ہیلو بچو، مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ تم لوگ زندہ سلامت لوٹ آئے ہو۔” اینگس کرسی سے اٹھ کر بولا۔

(جاری ہے…)

Comments

- Advertisement -