اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اتوار کی صبح جب آسمان پر بادل پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں گیل ٹے پر پڑ رہی تھیں، افق پر نقرئی شعلے بھڑک رہے تھے، ایسے میں ایڈن برگ سے نکلی ہوئی ریل گاڑی گیل ٹے کے اسٹیشن پر رک گئی۔ اس وقت جزائر آرکنے سے ایک رات کی مسافت طے کرنے والی بطخیں لوچ جھیل پر اتری تھیں۔

- Advertisement -

ڈریٹن نے جب ریل گاڑی کی وسل سنی تو ایک کنڈکٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی رکنے والے ہیں۔ اس وقت اس نے بڑبڑا کر کہا تھا: ’’اف اتنا طویل اور بے زار کن سفر تو میں نے زندگی بھر نہیں کیا تھا۔‘‘

کارن وال میں بورڈنگ کے بعد اسے لندن میں وکٹوریہ اور پھر ایڈن برگ ہی میں ویورلے اسٹیشن پر ایک ہی رات میں ریل گاڑیاں تبدیل کرنی پڑی تھیں۔ وہ سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر اپنے گلے میں نیکلس کی موجودی کو یقینی بناتے ہوئے ریل گاڑی سے اترا۔ اس نے خود کو ایک جوہڑ میں پایا جو رات کی تیز بارش سے بن گیا تھا۔

وہ نفرت سے بڑبڑایا: ’’غلیظ جگہ اور یہ منحوس سردی!‘‘ اس نے جلدی سے کوٹ کے بٹن بند کر دیے اور بڑبڑانے لگا کہ یہ تو کارن وال سے بھی بدتر جگہ ہے۔ اس کے قریب ہی اسٹیشن کا کنڈکٹر گارڈن بروس ایک شخص سے کہہ رہا تھا: ’’یہ ہے آپ کی ٹرین، یہ کریان لارچ جا رہی ہے، آپ کب واپس آئیں گے اینگس؟‘‘

’’میں کل دوپہر تک لوٹوں گا۔ میرا یہ دورہ مختصر ہے۔ بس ضرورت کے مطابق ہی کچھ تجارت کروں گا۔‘‘ اینگس نے ریل گاڑی میں چڑھتے وقت کہا۔ ریل گاڑی چل پڑی۔ ڈریٹن اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس نے کنڈکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، شاید وہ اس کے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ ڈریٹن کا حلیہ بھی عجیب تھا، اس کے کانوں میں کئی سارے چھلے لٹک رہے تھے۔ ’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں جناب؟‘‘

ڈریٹن نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ ’’میں ڈریٹن اسٹیلے ہوں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا: ’’دراصل میں ایک کتاب لکھنے یہاں آیا ہوں، اور کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں مجھے تنہائی اور سکون میسر آئے۔ میری بدقسمتی ہے کہ اینگس نکل گئے، ہم بہت پرانے دوست ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے اینگس کے بارے میں سراسر جھوٹ بولا تھا، اور اس چالاکی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، اس نے پوچھا: ’’کیا اینگس اب بھی قصبے میں رہتا ہے؟‘‘

کنڈکٹر نے جواب دیا: ’’وہ اسی گھر میں رہ رہا ہے جس میں اس نے اپنی زیادہ تر جوانی گزاری ہے۔‘‘

’’کیا اس نے شادی کی ہے؟‘‘ ڈریٹن نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کر دی لیکن کنڈکٹر کے چہرے پر سنجیدگی اسی طرح طاری رہی۔ ’’نہیں، اینگس نے کبھی شادی نہیں۔ نہ مجھے اس سے کوئی توقع ہے۔ آپ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

’’مجھے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں میں ناشتہ بھی کر سکوں اور آرام کے لیے ایک بستر بھی مل سکے۔ کیا یہاں قریب میں کوئی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہے؟‘‘

’’ابھی تو بہت سویرا ہے اور آج اتوار بھی ہے، لیکن اگر آپ مرکزی اسٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو مک ڈوگل کا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ دکھائی دے گا۔ دروازے پر دستک دے کر ایلسے سے کہنا کہ آپ کو کنڈکٹر گارڈن نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو جگہ دے دیں گی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور چلا گیا۔

ڈریٹن کو خدشہ تھا کہ کنڈکٹر اس کی موجودی کے بارے میں پتا کرنے بھی آسکتا ہے اس لیے وہ مک ڈوگل کے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہی آیا۔ اس نے اپنا سامان بستر پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر ’’ڈونٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی دروازے پر لٹکا دی، اور پھر کچن کا رخ کر لیا۔ ایلسے نے ناک پر جمی عینک ذرا سی اوپر کی جانب کھسکا کر پوچھا: ’’کیا میں آپ کو ناشتے میں کچھ دوں؟‘‘

’’بہت اچھا خیال ہے، یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ ڈریٹن نے دانت نکال کر حتی الامکان اپنے لہجے کو خوش گوار بناتے ہوئے کہا۔ ایلسے نے کہا: ’’دیگر مہمان کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سستا لیں۔ میں جلد ہی آپ کے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ویسے آپ کیا پسند کریں گے، چائے، کافی یا مالٹے کا جوس؟‘‘

اس نے اپنی شخصیت کا اچھا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو مالٹے کا جوس لے کر آئیں میرے لیے۔‘‘

’’بہت بہتر جناب اسٹیلے، آپ جا کر بیٹھ جائیں، میں بس آتی ہوں۔‘‘

ڈریٹن کھانے کے کمرے میں داخل ہوا تو چونک اٹھا۔ وہاں سب ہی لوگ بوڑھے تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیویاں تھیں جن کے چہرے اسے رنجیدہ نظر آئے۔ اپنے درمیان ایک جوان کو دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور گیل ٹے کی روایت کے مطابق ایک ایک کر کے سب اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ ڈریٹن چوں کہ اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجبوراً سب سے ہاتھ ملایا، تاہم جیسے ہی وہ کسی سے ہاتھ ملاتا فوراً ہی ہٹا دیتا۔ ذرا دیر بعد اس کے سامنے میز پر بھاری ناشتہ سج چکا تھا۔ اس نے بھنا گوشت، ساسیج، انڈا آملیٹ اور گندم کے توس کھائے اور آخر میں ایک گلاس مالٹے کا جوش بھی نوش کیا۔ پیٹ بھرنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے پیٹ میں مزید گنجائش نہیں رہی تو اس نے ایلسے کو دیکھ کر کہا: ’’ذرا سنیے ایلسے! کیا میں آپ کو اس طرح پکار سکتا ہوں؟‘‘

اس نے جواب میں خاموشی سے سر ہلا کر اجازت دی۔ ڈریٹن نے کہا: ’’دراصل میں اپنے پرانے دوست اینگس کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

ایلسے نے کہا: ’’کیا آپ اینگس مک ایلسٹر کی بات کر رہے ہیں، لیکن وہ تو آج صبح ہی کریان لارچ چلا گیا ہے، لیکن کل دوپہر تک آجائیں گے۔ کیا آپ یہاں رہیں گے یا نہیں؟‘‘

ڈریٹن نے کہا: ’’جی ہاں، میں یہیں رہوں گا۔ ویسے اب اس کا گھر کہاں ہے، کیا اسی پرانے گھر میں ہے وہ؟‘‘

ایلسے نے جواب دیا: ’’وہ اسی پرانے گھر ہی میں رہ رہے ہیں، جو اینسٹر اسٹریٹ کے آخر میں ہے، نمبر 23۔‘‘

(جاری ہے….)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں