تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

اس کہانی میں صرف نیوزی لینڈ کے ان مقامی پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ ہے جیسے ‘پوکے کو’ جو نیلے رنگ کا لمبی ٹانگوں والا مرغی کی قامت کا پرندہ ہے۔ ‘ٹوئی’ جو مینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ‘پیپی وارو۔ روا’ یعنی سنہرے اور سبز پروں والی بلبل جیسا پرندہ اور ‘کیوی’ جس کی لمبی چونچ ہوتی ہے اور یہ وہاں کا قومی پرندہ ہے۔ اس کہانی کا آغاز کرنے سے پہلے انھوں نے بچّوں سے یوں خطاب کیا ہے:

بچّوں کے لیے یہ کہانی سلمیٰ جیلانی نے تخلیق کی ہے جو کئی سال سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں، وہ افسانہ نگار، شاعرہ اور مترجم ہیں۔

پیارے بچّو! آج میں آپ کو اپنے موجودہ دیس نیوزی لینڈ کی ایک لوک کہانی سناتی ہوں جو یہاں کے قومی پرندے کیوی سے متعلق ہے۔ آپ نے یا آپ کے امّی ابّو نے وہ اشتہار شاید سنا ہو جس میں سوال کیا جاتا ہے۔

’’پیارے بچّو کیوی کیا ہے؟‘‘ اور پھر جواب دیا جاتا ہے کہ ’’کیوی ایک پرندہ ہے جو پالش کی ڈبیا پر رہتا ہے۔‘‘

نہیں بھئی، کیوی ہے تو پرندہ، مگر پالش کی ڈبیا پر نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں رہتا ہے۔ یہ جانوروں کی سب سے قدیم نسل سے تعلق رکھتا ہے اور یہ واحد پرندہ ہے جو اُڑ نہیں سکتا کیوں کہ اس کے پَر ہی نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود پرندہ کہلاتا ہے۔

اس کے علاوہ اس کی کئی اور باتیں عام پرندوں سے مختلف ہیں یعنی یہ رات کے وقت کھانا پینا تلاش کرنے نکلتا ہے۔ اکثر قومی شاہراہ پر بھی نکل آتا ہے اور تیز رفتار کاروں کا نشانہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل اور بھی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انڈا اس کے قد کی مناسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے اور اکثر انڈے دیتے ہوئے بھی مادہ کی جان چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ تعداد میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور اگر ان کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو اگلی نسل ان کو دیکھ بھی نہیں سکے گی۔

خیر یہ تو تھا کیوی کا مختصر تعارف اب آتے ہیں، اس لوک کہانی کی طرف جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔

ایک دن ’تنی مہوٹہ‘ یعنی جنگل کا دیوتا درخت (یہ یہاں کے سب سے قدیم درخت کاوری کو بھی کہتے ہیں جو ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں) جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچّے یعنی درخت جو آسمانوں کو چھوتے تھے کچھ بیمار لگ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کیڑے انہیں کھا رہے ہوں، اس نے اپنے بھائی ’تنی ہوکا ہوکا‘ یعنی آسمانوں کے بادشاہ سے کہا کہ وہ اپنے بچّوں کو بلائے چناں چہ اس نے فضاؤں کے تمام پرندوں کو ایک جگہ پر جمع کیا۔

’تنی مہوٹہ‘ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ” کوئی چیز میرے بچّوں یعنی درختوں کو کھا رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایک آسمانوں کی چھت سے نیچے اتر آئے اور زمین کے فرش پر اپنا گھر بنائے تاکہ درخت اس تکلیف سے نجات پائیں، اور تمہارا گھر بھی محفوظ رہے۔ ہاں تو بتاؤ تم سے کون ایسا کرنے کو تیار ہے؟‘‘

ان میں سے کوئی پرندہ بھی نہیں بولا سب کے سب ایک دم خاموش رہے۔

’تنی ہوکا ہوکا‘ مینا کی طرح کے پرندے ’ٹوئی‘ کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

’’ٹوئی! کیا تم زمین کے فرش پر جا کر رہنا پسند کرو گے؟‘‘

ٹوئی نے درختوں کے اوپر کی طرف نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتوں سے چھن کر نیچے جا رہی تھی، پھر نیچے جنگل کے فرش کی طرف دیکھا، جو بہت ٹھنڈا اور سیلا معلوم ہو رہا تھا اور وہاں بہت اندھیراتھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین کپکپا رہی ہو۔

ٹوئی نے ڈرتے ہوئے کہا’’محترم تنی ہوکا ہوکا، نیچے تو بہت اندھیرا ہے اور مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں نیچے نہیں جا سکتا۔‘‘

پھر ’تنی ہوکا ہوکا‘ نیلے رنگ کے لمبی ٹانگوں والے پرندے ’پوکے کو‘ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور اپنا سوال دہرایا۔

’’پوکے کو! کیا تم نیچے جا کر رہنا چاہو گے؟‘‘

’پوکے کو‘ نے نیچے کی طرف دیکھا۔ اسے بھی زمین نم آلود اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس نے ادب سے جواب دیا، ’’جناب ’تنی ہوکا ہوکا۔‘ زمین کا فرش تو بہت ہی گیلا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے خوب صورت پاؤں گیلے ہو جائیں۔

اس کے بعد تنی ہوکا ہوکا ’پیپی وارو۔ روا‘ یعنی سنہری بلبل کی طرح کے پرندے سے مخاطب ہوا۔

’’تو’پیپی وارو۔ روا‘! تمہارا کیا جواب ہے، کیا تم درختوں کی جان بچانے کے لیے جنگل کی چھت سے نیچے اترو گے؟‘‘

سنہری پرندے نے جنگل کی چھت سے چھنتی ہوئی سورج کی روشنی کی طرف دیکھا، پھر دوسرے پرندوں کی طرف نظر دوڑائی اور لا پروائی سے بولا۔

’’جناب محترم فی الحال تو میں اپنا گھونسلا بنانے میں بے حد مصروف ہوں، میں نیچے جا کر نہیں رہ سکتا۔‘‘

باقی سب پرندے خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے، اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔

ایک گہری اداسی’ تنی ہوکا ہوکا‘ کے دل میں اتر گئی، جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے بچّوں میں سے کوئی بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنے کو تیار نہیں، اس طرح نہ صرف اس کا بھائی اپنے بچّوں یعنی درختوں کو کھو دے گا بلکہ کسی پرندے کا گھر بھی باقی نہیں بچے گا۔ ’تنی ہوکا ہوکا‘ اس مرتبہ کیوی کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

’’اے کیوی! کیا تم جنگل کی چھت سے نیچے اترنا پسند کرو گے؟‘‘

کیوی نے درختوں پر نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتّوں سے چھن چھن کر ایک خوب صورت منظر پیش کر رہی تھی، اس نے اپنے اطراف دیکھا جہاں اسے اپنا خاندان دکھائی دیا، پھر اس نے زمین کے فرش کی جانب نظر کی، ٹھنڈی اور نم آلود زمین، اس کے بعد اپنے اطراف دیکھتے ہوئے’تنی ہوکا ہوکا‘ کی طرف گھوما اور بولا:

’’ہاں میں نیچے جاؤں گا۔‘‘ یہ سن کر ’تنی مہوٹا‘ اور تنی ہوکا ہوکا کے دل خوشی سے اچھل پڑے۔ اس ننھے پرندے کی بات انہیں امید کی کرن دکھا رہی تھی، لیکن تنی مہوٹا نے سوچا۔ کیوی کو ان خطرات سے آگاہ کر دیا جائے جن کا سامنا زمین پر جا کر رہنے سے اسے ہونے والا تھا۔

’’اے کیوی! جب تم زمین پر جا کر رہو گے تو تم موٹے ہو جاؤ گے، لیکن تمہاری ٹانگیں اتنی مضبوط ہو جائیں گی جو ایک جھٹکے سے لکڑی کو توڑ ڈالیں گی، تم اپنے خوب صورت چمکیلے پر کھو دو گے یہاں تک کہ اڑ کر دوبارہ جنگل کی چھت تک بھی نہیں پہنچ سکو گے اور تم دن کی روشنی بھی دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکو گے، کیا تمہیں یہ سب منظور ہے؟ کیا تم پھر بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنا چاہو گے؟‘‘

تمام پرندے خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے، کیوی نے اداسی سے درختوں کی شاخوں سے چھن کر آتی ہوئی، سورج کی روشنی کی طرف ایک الوداعی نظر ڈالی، پھر دوسرے پرندوں کی جانب دیکھا، ان کے خوب صورت اور رنگین پَروں اور اڑان بھرنے والے بازوؤں کو خاموش الوداع کہی، ایک بار پھر اپنے اطراف دیکھا اور’ تنی ہوکا ہوکا‘ سے مخاطب ہوا۔

’’ہاں، میں پھر بھی جاؤں گا۔‘‘ تنی ہوکا ہوکا نے اس کی بات سنی اور پھر دوسرے پرندوں کی طرف متوجہ ہوا۔

’’اے ٹوئی! چوں کہ تم جنگل کی چھت سے اترنے سے بہت خوف زدہ ہو، اس لیے آج سے تمہیں دو سفید پر دیے جاتے ہیں، جو تمہارے بزدل ہونے کی نشانی کے طور پرتمہاری گردن پہ ہمیشہ ثبت رہیں گے۔

اور ہاں’ پوکے کو‘! تم نیچے جا کر اس لیے رہنا نہیں چاہتے کہ تمہارے پاؤں گیلے نہ ہو جائیں تو آج سے تم ہمیشہ دلدلوں اور گندے پانی کے جوہڑوں میں رہا کرو گے اور تمہارے خوب صورت پاؤں کیچڑ میں لتھڑے رہیں گے۔

’پیپی وارو۔ روا‘! چوں کہ تم اپنا گھونسلا بنانے میں اتنے مصروف ہو کہ نیچے اتر کر رہنا تو کیا میری بات تک سننے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں تو آج سے تمہاری سزا یہ ہے کہ تم کبھی اپنا گھونسلا نہیں بنا سکو گے بلکہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیا کرو گے۔

لیکن پیارے کیوی! اپنی اس بے مثال قربانی کی وجہ سے تم تمام پرندوں میں سب سے زیادہ مشہور پرندے ہو گے اور تمہیں لوگ سب سے زیادہ پیار کریں گے۔‘‘

بچّو، اس دن سے آج تک کیوی ایک مختلف پرندہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے نیوزی لینڈ کا قومی پرندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

Comments

- Advertisement -