تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

شریف گھرانے کی ایشیائی لڑکی کا ‘غیر مرد’ کو لکھا گیا ایک خط!

جناب بھائی صاحب!
آپ کا خط ملا۔ میں آپ کو ہر گز خط نہ لکھتی، لیکن پھر خیال آیا کہ آپ کی بہن میری سہیلی ہیں اور کہیں وہ برا نہ مان جائیں۔

وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ کبھی کسی غیر مرد کو خط بھیجوں گی۔ امید کرتی ہوں کہ آئندہ لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں گے کہ آپ ایک شریف گھرانے کی ایشیائی لڑکی سے مخاطب ہیں۔ احتیاطاً تحریر ہے کہ میرا آپ کو خط لکھنا اس امر کا شاہد ہے کہ ہم لوگ کس قدر وسیع خیالات کے ہیں۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ رشیدہ اور حمیدہ کو جانتے ہیں۔ کلثوم اور رفعت سے بھی واقفیت رہ چکی ہے۔ ثریا اور اختر کو خط لکھا کرتے تھے۔ آپ کو کلب میں‌ ناچتے بھی دیکھا گیا ہے اور ایک شام کو آپ چمکیلی سی پیلے رنگ کی چیز چھوٹے سے گلاس میں پی رہے تھے اور خوب قہقہے لگا رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ماڈرن نہیں ہیں۔ ہمیں یہ ہوا نہیں لگی۔ نہ اس روش پر چلنے کا ارادہ ہے۔ ہمارے ہاں جہاں مذہب، شرافت اور خاندانی روایات کا خیال ملحوظ ہے وہاں اعلیٰ تربیت اور بلند خیالی بھی ہے۔

میں بی اے (آنرز) میں پڑھتی ہوں۔ شام کو مولوی صاحب بھی پڑھانے آتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے مجھے تانگے میں کالج سے نکلتے دیکھا تھا اور میں نے برقعے کا نقاب الٹ رکھا تھا۔ آپ نے کسی اور کو دیکھ لیا ہو گا۔ اوّل تو میں ہمیشہ کالج کار میں جاتی ہوں، دوسرے یہ کہ میں نقاب نہیں الٹا کرتی۔ ہمیشہ برقعہ میرے ہاتھوں میں کتابوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔

جی ہاں مجھے ٹھوس مطالعے کا شوق ہے۔ ابّا جان کی لائبریری میں فرائیڈ، مارکس، گراؤچو مارکس، ڈکنز، آگاتھا کرسٹی، پیٹر چینی، تھورن اسمتھ اور دیگر مشہور مفکروں کی کتابیں موجود ہیں۔ میں نے سائیکا لوجی پڑھنا شروع کی تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ سب کچھ تو مجھے پہلے سے معلوم ہے۔ فلاسفی پڑھی تو محسوس ہوا جیسے یہ سب درست ہے۔ سوشل سائنس پڑھی تو لگا کہ واقعی یونہی ہونا چاہیے تھا۔ آخر ہمیں ایک نہ ایک روز تو جدید تہذیب کے دائرے میں آنا تھا۔ زمانے کو بیسویں صدی تک بھی تو پہنچنا ہی تھا۔ میرے خیال میں میں کافی مطالعہ کر چکی ہوں۔ چنانچہ آج کل زیادہ نہیں پڑھتی۔

آپ نے پوچھا ہے کہ موجودہ ادیبوں میں سے مجھے کون پسند ہیں۔ سو ڈپٹی نذیر احمد، مولانا راشد الخیری اور پنڈت رتن ناتھ سرشار میرے محبوب مصنفین ہیں۔ شاعروں میں نظیر اکبر آبادی مرغوب ہیں۔ خواتین میں ایک صاحبہ بہت پسند ہیں۔ انہوں نے صرف دو ناول لکھے ہیں جن میں جدید اور قدیم زیورات و پارچہ جات، بیاہ شادی کی ساری رسوم اور طرح طرح کے کھانوں کے ذکر کو اس خوبصورتی سے سمو دیا ہے کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ ناول کہاں ہے اور یہ چیزیں کہاں؟

ایک اور خاتون ہیں، جو باوجود ماڈرن ہونے کے ترقی پسند نہیں ہیں۔ ان کے افسانے، ان کی امنگیں، ان کی دنیا، سب کچھ صرف اپنے گھر کی فضا اور اپنے خاوند تک محدود ہے۔ مبارک ہیں ایسی ہستیاں۔ ان کی تصویریں دیکھ دیکھ کر ان سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ پھر پتہ چلا کہ ان کا رنگ مشکی ہے اور عینک لگاتی ہیں۔

آپ کی جن کزن کا کہنا ہے کہ انہوں نے مجھے کلب میں دیکھا تھا ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ خود وہاں کیا کر رہی تھیں۔

یہ جن حمید صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہی تو نہیں جو گورے سے ہیں۔ جن کے بال گھنگھریالے ہیں اور داہنے ابرو پر چھوٹا سا تل ہے۔ گاتے اچھا ہیں۔ روٹھتے بہت جلد ہیں۔ جی نہیں۔ میں انہیں نہیں جانتی۔ نہ کبھی ان سے ملی ہوں۔

میری حقیر رائے میں آپ نے آرٹس پڑھ کر بڑا وقت ضائع کیا ہے۔ آپ کی بہن نے لکھا ہے کہ اب آپ کا ارادہ بزنس کرنے کا ہے۔ اگر یہی ارادہ تھا تو پھر پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ عمر میں گنجائش ہو تو ضرور کسی مقابلے کے امتحان میں بیٹھ جائیے اور ملازمت کی کوشش کیجیے کیونکہ ملازمت ہر صورت میں بہتر ہے۔ اس کے بغیر نہ پوزیشن ہے نہ مستقبل۔ یہاں ڈپٹی کمشنر کی بیوی ساری زنانہ انجمنوں کی سیکرٹری ہیں اور تقریباً ہر زنانہ جلسے کی صدارت وہی کرتی ہیں۔ دوسرا فائدہ ملازمت کا یہ ہے کہ انگلستان یا امریکہ جانے کے بڑے موقعے ملتے ہیں۔ مجھے دونوں ملک دیکھنے کا ازحد شوق ہے۔

آپ نے موسیقی کا ذکر کیا ہے اور مختلف راگ راگنیوں کے متعلق میری رائے پوچھی ہے۔ جی ہاں مجھے تھوڑا بہت شوق ہے۔ جے جے ونتی سے آپ کو زیادہ دل چسپی نہیں۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ جب دلی سے بٹھنڈہ آتے وقت میں نے جے جے ونتی اسٹیشن دیکھا تو مجھے بھی پسند نہیں آیا۔ میاں کی ملہار سے آپ کی مراد غالباً خاوند کی ملہار ہے۔ جی نہیں میں نے یہ نہیں سنی۔ ویسے ایک خاندان کے افراد بھی میاں کہلاتے ہیں۔ شاید یہ ان کی ملہار ہو۔ آپ کا فرمان ہے کہ ٹوڈی صبح کی چیز ہے لیکن میں نے لوگوں کو صبح شام ہر وقت” ٹوڈی بچہ ہائے ہائے” کے نعرے لگاتے سنا ہے۔

بھوپالی کے متعلق میں زیادہ عرض نہیں کر سکتی، کیونکہ مجھے بھوپال جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ البتہ جوگ اور بہاگ کے بارے میں اتنا جانتی ہوں کہ جب یہ ملتے ہیں تو سوزِ عشق جاگ اٹھتا ہے (ملاحظہ ہو وہ گرامو فون ریکارڈ "جاگ سوزِ عشق جاگ)

جی ہاں، مجھے فنونِ لطیفہ سے بھی دل چسپی ہے۔ مصوّری، بت تراشی، موسیقی، فوٹو گرافی اور کروشیے کی بہت سی کتابیں ابّا جان کی لائبریری میں رکھی ہیں۔ میں اچھی فلمیں کبھی نہیں چھوڑتی۔ ریڈیو پر اچھا موسیقی کا پروگرام ہو تو ضرور سنتی ہو، خصوصاً دوپہر کے کھانے پر۔

سیاست پر جو کچھ آپ کے لکھا ہے اس کے متعلق اپنی رائے اگلے خط میں لکھوں گی۔

آپ کی بہن مجھ سے خفا ہے اور خط نہیں لکھتی۔ شکایت تو الٹی مجھے ان سے ہونی چاہیے۔ انہوں نے رفی کو وہ بات بتا دی جو میں نے انہیں بتائی تھی کہ اسے نہ بتانا۔ خیر بتانے میں تو اتنا حرج نہ تھا لیکن میں نے ان سے تاکیداً کہا تھا کہ اس سے نہ کہنا کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ اس سے نہ کہنا۔

پتہ نہیں یہ کزن والی کون سی بات ہے جس پر انہوں نے مجھ سے قسم لی تھی کہ رفی تک نہ پہنچے۔ مجھے تو یاد نہیں۔ ویسے میری عادت نہیں کہ دانستہ طور پر کوئی بات کسی اور کو بتاؤں۔ اگر بھولے میں منہ سے نکل جائے تو اور بات ہے۔

خط گھر کے بجائے کالج کے پتے پر بھیجا کیجیے اور اپنے نام کی جگہ کوئی فرضی نام لکھا کیجیے تاکہ یوں معلوم ہو جیسے کوئی سہیلی مجھے خط لکھ رہی ہے۔

باقی سب خیریت ہے۔

فقط
آپ کی بہن کی سہیلی​
(اور اس خط کا ذکر کسی سے بھی مت کیجیے۔ تاکیداً عرض ہے)

(معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم کی شوخی)

Comments

- Advertisement -