کوّے سے ہم کئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔
کوّا بڑی سنجیدگی سے اڑتا ہے، بالکل چونچ کی سیدھ میں۔ کوّے اڑ رہے ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرط لگا کر اڑ رہے ہیں۔ کوّے فکر معاش میں دور دور نکل جاتے ہیں لیکن کھوئے نہیں جاتے۔ شام کے وقت کوئی دس ہزار کوّا کہیں سے واپس آجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ غلط کوّے ہوں۔
کوّا اتنا غیر رومانی نہیں جتنا میں اور آپ سمجھتے ہیں۔ شاعروں نے اکثر کوّے کو مخاطب کیا ہے۔ ”کاکا لے جا ہمارو سندیس“ ”کاگا رہے جارے جارے“ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمیشہ کوّے کو کہیں دور جانے کے لیے کہا گیا ہے۔ کسی نے بھول کر بھی خوش آمدید نہیں کہا۔ بلکہ ایک شاعر نے تو یہاں تک کہہ گیا کہ ”کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس“ یہاں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ آپ جانیں اور آپ کاگا۔
اگر آپ کوؤں سے نالاں ہیں تو مت بھولیے کہ کوّے بھی آپ سے نالاں ہیں…!
(ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمٰن کی ایک تحریر سے اقتباس)