اردو زبان میں سوانح اور آپ بیتیاں، شخصی خاکے اور ادبی تذکرے مشاہیر اور علم و ادب کی معروف ہستیوں کے درمیان نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ، طعن و تشنیع، رنجش و مخالفت پر مبنی دل چسپ، بذلہ سنج، کچھ تکلیف دہ اور بعض ناخوش گوار واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سعادت حسن منٹو سے کون واقف نہیں…. وہ نہایت حساس شخصیت کے مالک اور تند خُو ہی نہیں انا پرست بھی تھے۔ جس سے یارانہ ہوگیا، ہوگیا، اور جس سے نہ بَنی، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مشکل۔ اگر منٹو کی کسی وجہ سے کسی کو ناپسند کرتے تو پھر خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
اس پس منظر کے ساتھ یہ اقتباس پڑھیے جو آپ کو اپنے وقت کے چند بڑے ادیبوں کے مابین نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے گا۔ اسے اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی نے منٹو پر اپنے مضمون میں رقم کیا ہے۔
ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔ ‘‘دیکھو منٹو میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں۔’’
منٹو نے جھلّا کر کہا: ‘‘میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا!’’
مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرت سے منٹو کی ٹکر ہوئی۔ واقعہ دلّی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دَور چل رہا تھا۔ حسرت اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے۔ ذکر تھا سومرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤنے انداز میں کہنے، ‘‘مقاماتِ حریری میں لکھا ۔۔۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہوگی، عربی میں ہے یہ کتاب۔’’ دیوانِ حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا۔۔۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے اور حسرت نے تابڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دیے۔
منٹو خاموش بیٹھا بیچ و تاب کھاتا رہا۔ بولا تو صرف اتنا بولا۔ ‘‘مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے۔’’
بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرت کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا، ‘‘کیوں مولانا’’ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہو گی، وہ تو انگریزی میں ہے اور فلاں کتاب؟ شاید آپ نے اس جدید ترین مصنّف کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لیے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آگئے۔
منٹو نے کہا ‘‘مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پَر لگا ہوا نہیں ہے۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجیے۔’’
مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ‘‘یار تُو نے یہ اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لیے؟’’
منٹو نے مسکراکر کہا: ‘‘کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا کے ہاں گیا تھا۔ جدید ترین مطبوعات کی فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی۔’’