تازہ ترین

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

خواہش ہے پی آئی اے کی نجکاری جون کے آخر تک مکمل کر لیں: وفاقی وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا...

”آپ کیسے صحافی ہیں؟“

ہم صحافی تو بعض لوگوں کی نظر میں ”دانائے راز“ اور ”بحرالعلوم“ قسم کی کوئی ”چیز“ ہیں، جو حکم رانوں کے کردار سے فلکیات کے اسرار تک اور سیاست دانوں کی املاک سے رموزِ افلاک تک ہر بات کی خبر رکھتے ہیں۔

صحافیوں کو چاروناچار اپنے بارے میں عوام کی ”خوش عقیدگی“ کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ چناں چہ ہر سوال کا تسلی بخش جواب دینا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔

کسی معاملے سے ناواقفیت کا اظہار صحافی کو طنزیہ نظروں اور ملامتی فقروں کا نشانہ بنا دیتا ہے اور اسے ”آپ کیسے صحافی ہیں“، ”آپ کو یہ بھی نہیں معلوم“ اور ”آپ کو تو پتا ہونا چاہیے“ جیسے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیگر صحافیوں کی طرح ہم اکثر اس صورت حال سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے، ہم ایک دعوت ولیمہ میں بیٹھے کھانے کی بند قابوں کو بڑی حسرت سے تک رہے تھے۔ اس وقت بھوک کی شدت کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ سب صرف معدہ بنے ہوئے تھے۔

ملک میں عدالتی بحران کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ امریکا ایران پر کب حملہ کرے گا؟ بے نظیر اور حکومت کے درمیان ڈیل ہوچکی ہے یا نہیں؟ مسئلہ کشمیر پر کیا گزر رہی ہے؟ جیسے سوالات کے بہ جائے ہمارے دماغ میں یہ ”کرنٹ ایشوز“ گردش کررہے تھے کہ بند قابوں میں بریانی ہے یا قورمہ؟ گوشت گائے کا ہے یا مرغی کا؟ اور میٹھے میں کھیر ہے یا حلوہ؟ ایسے عالم میں ایک دور کے عزیز چندا ماموں ہمارے بہت قریب آبیٹھے اور حال احوال پوچھنے کے بعد شروع ہوگئے:

چندا ماموں: آپ کو تو پتا ہوگا۔ باب وولمر کو کس نے قتل کیا؟ دل میں تو آئی کہ ہم ان کا گلا دباکر کہیں ”جاؤ، خود جاکر مقتول سے پوچھ لو“، لیکن ضبط کرگئے اور پھر اپنے پیشے کی لاج رکھنے کے لیے کوئی دور کی کوڑی لانے کے لیے خیالات میں مستغرق ہوگئے۔

کچھ دیر کے بعد خود پر صحافیانہ شان طاری کرکے گویا ہوئے، ”یہ ایک بہت بڑی اور گہری سازش ہے۔“

”اچھا!“ چندا ماموں تفصیلات جاننے کے لیے بے تاب ہوگئے۔

ہم نے انھیں بے تاب چھوڑ کر سامنے رکھے پانی کے گلاس سے آہستہ آہستہ چند گھونٹ پیے۔ پھر بڑی سستی سے جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا، اتنی ہی کاہلی کے ساتھ پیکٹ سے سگریٹ برآمد کی۔ چند لمحے لائٹر کی تلاش میں صرف کیے اور کئی ساعتیں سگریٹ سلگانے میں لگائیں۔ اگرچہ ”اتنی بڑی سازش“ کی تیاری کے لیے یہ سارا وقت بہت کم تھا، مگر ہم نے اس دوران ”باب وولمر کے قتل کی سازش“ کے سارے تانے بانے بُن لیے۔

”جی“ چندا ماموں جو ہماری سست رو ”مصروفیات“ سے عاجز آچکے تھے، بے قرار ہوکر بولے۔

ہم: (کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے) دراصل باب وولمر کا قتل سی آئی اے کی کارستانی ہے اور سی آئی اے نے ”را“ اور ”موساد“ کے گٹھ جوڑ سے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ اس سازش کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔

باب وولمر کو اس لیے قتل کیا گیا کہ آیندہ کوئی غیرملکی کوچ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے خدمات انجام دینے کی جرأت نہ کرسکے۔ اس طرح ہماری ٹیم دن بہ دن کم زور ہوتی جائے گی۔

ٹیم کے کم زور ہونے کے نتیجے میں پاکستانیوں کی کرکٹ سے دل چسپی رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی اور وہ ملک کے اور اپنے سنجیدہ مسائل کی طرف متوجہ ہوجائیں گے، جس کا نتیجہ احتجاج اور افراتفری کی صورت میں نکلے گا، تو ایسے میں پاکستان کا استحکام خطرات سے دوچار ہوگا یا نہیں؟

ہماری یہ ہنگامی بنیادوں پر تیار کردہ ”چشم کشا تحقیقاتی رپورٹ“ سن کر چندا ماموں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

(محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ کالموں کے مجموعے "کہے بغیر” سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -