تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

ذوالفقار علی بخاری کو دنیائے ادب اور فنون میں زیڈ اے بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی وجہِ شہرت شاعری اور صدا کاری ہے، لیکن تخلیقی جوہر سے مالا مال زیڈ اے بخاری نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک ماہرِ نشریات اور منتظم، پروڈیوسر اور اسٹیج اداکار کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ 12 جولائی 1975 کو زیڈ اے بخاری اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

وہ 1904 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں سب بخاری صاحب پکارتے جو اردو زبان کی صحت، املا اور ریڈیو پر درست تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

زیڈ اے بخاری کو کم عمری ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی تھے۔

یہ 1936 کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب بھی اس میڈیم سے منسلک ہوگئے اور زندگی بھر ریڈیو سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لندن سے ریڈیو نشریات کے لیے تربیت حاصل کی اور واپسی پر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام عمل میں‌ لایا گیا تو بخاری صاحب ہی پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔

ان کے والد صاحبِ دیوان نعت گو شاعر جب کہ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ایسے علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پروان چڑھنے والے بخاری صاحب کو حسرت موہانی، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی جیسے عظیم شعرا کی صحبت بھی میسر آئی جس نے انھیں‌ شاعری پر مائل کیا۔

زیڈ اے بخاری کو اردو کے علاوہ فارسی، پنجابی، پشتو، بنگالی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے زمانے میں صحتِ زبان کا بہت خیال رکھا گیا۔

زیڈ اے بخاری نے اپنے حالاتِ زندگی کو ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیا جو نثر میں ان کے کمال کی یادگار ہے۔ موسیقی کے رسیا ہی نہیں‌ راگ راگنیوں‌ سے بھی واقف تھے اور فنِ موسیقی پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی ان کی یادگار ہے۔

Comments

- Advertisement -