اسرائیل کو ایران کی جوابی کارروائی سے بچانے کے لیے امریکا کُھل کر مدد کرنے لگا۔
امریکی فضائی دفاعی نظام اور بحری ڈسٹرائر نے اسرائیل پر فائر کیے گئے ایرانی میزائلوں کو مار گرانے میں مدد کی ہے۔
امریکی حکام نے بتایا کہ امریکی فضائی دفاعی نظام اور بحریہ کے ایک ڈسٹرائر نے جمعہ کو آنے والے بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے میں اسرائیل کی مدد کی جو تہران نے ایران کی جوہری تنصیبات اور اعلیٰ فوجی رہنماؤں پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں شروع کیا تھا۔
امریکا کے پاس زمینی پر پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام اور مشرق وسطیٰ میں ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایئر ڈیفنس سسٹم ہے جو بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جسے ایران نے اسرائیل کے ابتدائی حملے کے جواب میں متعدد بیراجوں میں فائر کیا۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ مشرقی بحیرہ روم میں بحریہ کے ایک ڈسٹرائر نے اسرائیل کی طرف بڑھنے والے ایرانی میزائلوں کو بھی مار گرایا۔
امریکا حملوں کے جواب میں بحری جہازوں سمیت فوجی وسائل بھی مشرق وسطیٰ میں منتقل کر رہا ہے۔
امریکی حکام نے بتایا کہ نیوی نے تباہ کن یو ایس ایس تھامس ہڈنر کو، جو بیلسٹک میزائلوں کے خلاف دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کو مغربی بحیرہ روم سے مشرقی بحیرہ روم کی طرف سفر شروع کرنے کی ہدایت کی ہے اور دوسرے ڈسٹرائر کو آگے بڑھنے کی ہدایت کی ہے تاکہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے درخواست کرنے پر دستیاب ہو سکے۔
تہران میں غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ایرانی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکی حمایت کے بغیر جارحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ امریکی افواج اسلامی جمہوریہ کے خلاف اسرائیلی حکومت کے فوجی حملوں کی حمایت کر رہی ہیں، امریکا کو ان حملوں کا جوابدہ ہونا چاہیے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ امریکا کو اپنے واضح موقف کا اعلان کرنا چاہیے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرنی چاہیے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تہران توقع کرتا ہے کہ واشنگٹن اس معاملے سے ہٹ جائے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بے حسی کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ایران کا اسرائیلی فوجی اور اقتصادی اہداف پر حملوں کا مقصد اپنا دفاع کرنا ہے۔