تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

فوج کی واپسی : ترکی نے امریکہ کو بڑا جھٹکا دے دیا

استنبول : ترکی نے امریکہ کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا کی حکومت کی منظوری تک ترک فوج لیبیا میں ہی رہے گی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدارتی ترجمان ابراہیم کالن نے  میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران ترک حکومت کے فیصلے کی تصدیق کی ہے۔

اس حوالے سے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر لیبیا سے تمام غیر ملکی افواج کی واپسی پر زور دیا گیا ہے اور ترکی لیبیا میں نئے شامی مرسینریز بھیجنے کی تیاری کررہا ہے۔

لبیا میں ترکی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں فوجیوں کی موجودگی نے لیبیا میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے عبوری عمل کے دوران ملک کی عبوری حکومت کی کامیابی سے متعلق بحث کو جنم دیا ہے۔

ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ غیر ملکی مداخلت سے لیبیا میں اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن کے ملک میں لڑائی کرنے والے حلقوں کو روکنے کے کام میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔

مڈل ایسٹ سینٹر فار رپورٹنگ اینڈ اینالیسز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیتھ فرینٹزمن کا کہنا ہے کہ ترکی کو لیبیا میں اپنے کردار سے فائدہ ہے کہ وہ ملک میں کشیدگی اور ممکنہ سیاسی تصفیے کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، ‘ترکی نے لیبیا میں ڈرونز اور اسلحہ بھیج کر اسلحے پر پابندی کی خلاف ورزی کی۔ اب سوال یہ ہے کہ ترکی کی وجہ سے سیاسی حل نکلتا ہے یا نہیں۔’

گذشتہ سال 23 اکتوبر کو طے پانے والی لیبین جنگ بندی کے معاہدے کے تحت لیبیا میں موجود مرسینریز اور غیر ملکی افواج کو تین مہینوں کے اندر واپس چلے جانا چاہیے تھا۔

تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ ترک فوج لیبیا کی عبوری حکومت، گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ، کے حمایتی حلقوں کو ملٹری ٹریننگ دے رہی ہے۔

اس لیے ترکی نے ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اپنے فوج واپس بلانے سے انکار کردیا ہے۔ حال ہی میں تقریباً 1300لیبین افواج نے ترکی کی جانب سے کی جانے والی ٹریننگ مکمل کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترکی پر دباوٗ ڈالا جا رہا ہے کہ نیگورنو کاراباخ اور لیبیا سے اپنی فوج واپس بلائے۔ آذربائیجان نے آرمینیا سے 30 سال بعد اپنے مقبوضہ علاقوں میں فتح حاصل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی چاہتا ہے کہ آذربائیجان ان علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے اور جب تک آذربائیجان ان علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر لیتا ترک فوج کاراباخ سے واپس نہیں آئے گی۔

Comments

- Advertisement -