امریکی حکام نے بےحسی کی انتہا کرتے ہوئے فلسطینی کارکن محمود خلیل کو نومولود بیٹے سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
امریکی ایجنسی، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ اور ایک نجی جیل کانٹریکٹر نے کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم اور فلسطینی کارکن محمود خلیل کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے نومولود بیٹے سے ملاقات کرسکے اور اسے گود میں لے سکے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق خلیل کی فلسطین نواز سرگرمیوں کی وجہ سے اسے کیخلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایسا کیا گیا۔
30سالہ خلیل قانونی طور پر امریکا کے مستقل رہائشی ہیں، انھیں کولمبیا میں فلسطین نواز مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں مارچ میں نیویارک شہر میں یونیورسٹی کی ملکیت والے اپارٹمنٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
دو ماہ سے زائد عرصے سے سینٹرل لوزیانا میں واقع آئی سی ای پروسیسنگ سینٹر میں زیر حراست رہنے والے خلیل کا امیگریشن کیس نیو جرسی میں جاری ہے۔
انکی اہلیہ نور عبداللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ "میں اپنے ایک ماہ کے نومولود بیٹے کے ساتھ ایک ہزار میل سے زائد کا سفر طے کرکے لوزیانا پہنچی، صرف اس لئے کہ اس کے والد سے اسکی ملاقت کروائوں وہ اسے گود میں لے سکے۔
تاہم آئی سی ای نے ہمیں بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کر دیا، یہ صرف بے رحمی نہیں، بلکہ دانستہ تشدد ہے، یہ خاندانوں کو الگ کرنے والی حکومت کی جانب سے ایک ظلم ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیو جرسی کے وفاقی جج مائیکل ای فاربیارز نے بدھ کو حکم دیا تھا کہ خلیل کو ان کی اہلیہ اور وکلا کے ساتھ ایک ملاقات کی اجازت دی جائے۔
تاہم عدالتی حکم میں واضح طور پر خلیل محمود کو اپنے نومولود بیٹے کو دیکھنے یا گود میں لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔