لاہور: جہانگیرترین گروپ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی سے ملاقات میں اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک اعتماد جمع ہونے کے بعد پنجاب میں بھی بزدار کی تبدیلی کی بازگشت میں تیزی آگئی ہے۔
پی ٹی آئی کے تین ناراض گروپ سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ عثمان بزدار نے بھی سیاسی حکمت عملی کے تحت اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کرنا شروع کردیں ہیں۔
اسی تناظر میں آج جہانگیر ترین گروپ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے ان کی خواہش پر ملاقات کی ، ملاقات کرنے والوں میں نعمان لنگڑیال، عون چوہدری ،لالہ طاہر رندھاوا، عبد الحئی دستی ،اجمل چیمہ اور دیگر شامل تھے۔
ملاقات میں چوہدری پرویزالٰہی نے جہانگیر ترین کی خیریت دریافت کی اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا, ملاقات میں ترین گروپ نے پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹری میں جمع ہونے پر استفسار کیا، جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ابھی عدم اعتماد کی تحریک پنجاب اسمبلی میں جمع نہیں ہوئی۔
ملاقات میں جہانگیر ترین گروپ کے وفد نے پرویز الٰہی کو مائنس ون ایجنڈے پر آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گروپ کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ہمیں عثمان بزدار قبول نہیں، پنجاب تباہ ہو چکا ہے عوام کے مفاد کے لئے سامنے آنا ہوگا، ہم عثمان بزدار کو ہٹانے نکلے ہیں ہمارا ساتھ دیا جائے کیونکہ عثمان بزدار نے تحریک انصاف کے مخلص ساتھیوں کو مایوس کیا۔
اس موقع پر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ تمام تر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کرکے ہی تمام فیصلے کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ ق تحریک عدم اعتماد پر کس کا ساتھ دے گی ؟ حکومت یا اپوزیشن، واضح ہوگیا
ملاقات میں صوبے اور عوام کی بہتری کیلئےترین گروپ اور پرویزالٰہی نے رابطےجاری رکھنےپر اتفاق کیا، یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ترین گروپ کے رہنما جلد چوہدری شجاعت حسین سے بھی ملاقات کریں گے۔
اس سے قبل آج پنجاب کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی ہوئی تھی جہاں حکمران جماعت کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بھی حکومت کےاتحادی کے طور پر نظرثانی کا اشارہ دے دیا تھا۔
گزشتہ روز تین وفاقی وزرا سے مونس الہیٰ اور طارق بشیرچیمہ کی دوسری ملاقات ہوئی، جس میں رہنماؤں نے واضح کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے اپنے ہی پندرہ سے بیس ارکان فلورکراسنگ کرکے اپوزیشن کے ساتھ ہوگئے تو پھر ہمارے لیے مشکل ہوگا کہ ہم مزید حکومت کا ساتھ دیں ، ہم مجبور ہوں گے کہ اپوزیشن کے ساتھ ہوجائیں۔