23.8 C
Dublin
بدھ, مئی 22, 2024
اشتہار

فتحِ قسطنطنیہ اور سلطان محمد فاتح

اشتہار

حیرت انگیز

عثمانی حکم رانوں کی تاریخ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے انھیں عالمِ اسلام میں وہ عزّت و احترام اور مقام و مرتبہ عطا کیا جس کی مثال دی جاتی ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔

قسطنطنیہ کی فتح ایک تاریخ ساز اور عظیم تبدیلی ثابت ہوئی جس کے ساتھ ہی نہ صرف صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ممکن ہوا بلکہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر اس فتح نے خطّے کو ایک نئی سمت اور شکل دے دی۔ 3 مئی 1481ء کو محمد فاتح وفات پاگئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں مدفون ہیں۔

محققین لکھتے ہیں‌ کہ قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر اس فتح‌ کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گئی تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور اسی کے بعد اگلی چار صدیوں تک عثمانیوں کی تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بڑے حصّوں پر حکومت قائم رہی۔

- Advertisement -

مسلمان فتحِ قسطنطنیہ کا خواب سات سو سال سے دیکھ رہے تھے اور اس عرصہ میں انھیں متعدد فوجی مہمّات میں ناکامی ہوئی تھی۔ اس فتح کے بعد امورِ‌ سلطنت میں اپنے حُسنِ انتظام اور اپنی قابلیت کی بناء پر کیے گئے کئی فیصلوں اور اقدامات کی بدولت بھی محمد ثانی الفاتح نے شہرت پائی۔ ان کا دورِ حکومت برداشت اور رواداری کے لیے مشہور تھا۔ سلطان 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ نوجوان تھے جب انھیں امورِ‌ سلطنت اور عثمانی فوج کی قیادت کا موقع ملا اور فتح قسطنطنیہ کے وقت وہ محض 21 برس کے تھے۔ سلطان کی فوج نے کئی روزہ محاصرے اور گولہ باری کے بعد قسطنطنیہ فتح کیا جس کے بارے میں اطالوی طبیب نکولو باربیرو آنکھوں دیکھا حال یوں‌ بیان کرتا ہے کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

مشہور ہے کہ فاتح کی حیثیت سے سلطان محمد شہر اپنے سفید گھوڑے پر سوار داخل ہوئے اور اس کی زمین سے مٹھی خاک اٹھا کر اپنی پگڑی پر ڈالی۔ محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ ان کے دور میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں انھوں نے بھی حصہ لیا اور اس موقع پر وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور حربی تربیت حاصل کی۔

محمد ثانی نے یورپ کی طرف بھی پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ عثمانی فوج کو شکست بھی ہوئی، لیکن سلطان کے دور میں‌ سلطنت وسعت بھی پاتی رہی۔

محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و فنون کے شیدائی اور قابل و ہنر مند شخصیات کے بڑے قدر داں اور سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلا تفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں