جمعہ, دسمبر 27, 2024
اشتہار

وکٹر ہیوگو: فرانس کا سب سے بڑا ناول نگار

اشتہار

حیرت انگیز

وکٹر ہیوگو کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے جس کے ناولوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا اور فلمیں بنائی‌ گئیں۔ وکٹر ہیوگو ناول نگار ہی نہیں بحیثیت شاعر اور صحافی بھی مشہور ہے۔ وکٹر ہیوگو 1885ء میں آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

وکٹر ہیوگو نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا بطور شاعر کی تھی لیکن پھر وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ناول نگاری اور ڈرامے لکھنا شروع کیے اور اس کی کہانیاں‌ فرانس کے علمی و ادبی حلقوں اور عام قارئین میں مقبول ہونے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وکٹر ہیوگو نے بطور ناول نگار فرانسیسی ادب میں بڑا مقام پایا اور دنیا بھر میں اپنے ناولوں کی بدولت شہرت حاصل کی۔

عالمی شہرت یافتہ وکٹر ہیوگو 26 فروری 1802ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فوج میں‌ اعلیٰ‌ عہدے پر فائز تھا اور اسی سبب اکثر یہ کنبہ اپنے گھر کے سربراہ کا تبادلہ ہونے پر مختلف شہروں میں رہتا رہا اور انھیں اسپین بھی جانا پڑا۔ یوں وکٹر ہیوگو کو مختلف ماحول اور ثقافت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ والدین میں علیحدگی کے بعد وکٹر ہیوگو اپنے والد کے ساتھ رہا۔ بطور نثر نگار وکٹر ہیوگو کا پہلا ناول 1823ء میں شایع ہوا اور عالمی ادب میں اسے رومانوی تحریک سے وابستہ تخلیق کار شمار کیا گیا۔

- Advertisement -

وکٹر ہیوگو حسن و جمال کا دلداہ تھا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ بھی آئیں۔ اس ادیب کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو نے ناول لکھنے کے ساتھ اس وقت کے سب سے مقبول میڈیم یعنی اسٹیج کے لیے کئی کھیل بھی تحریر کیے اور ساتھ ہی شاعری میں طبع آزمائی بھی جاری رکھی۔ وکٹر ہیوگو ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب تخلیق کرنے کے ساتھ صحافت کے علاوہ عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور انسانی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتا رہا۔

Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار کیا جاتا ہے جسے اردو زبان میں‌‌ بھی ترجمہ کیا گیا اور اس پر متعدد فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ اردو زبان کے علاوہ یہ ناول اب تک بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں یہ وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر مشہور ہے۔ یہ ناول اس ادیب نے 1845ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ اس کی تکمیل 1861ء میں ہوئی۔ باقر نقوی نے بھی اسے اردو کا جامہ پہنایا اور وہ اس شاہکار کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’یہ تصنیف بدلتے ہوئے فرانس کی بدحالی کے زمانے کی بہترین عکاس ہے۔ اس پر مستزاد ہیوگو کی باریک بینی نے اس میں چار چاند لگادیے ہیں، اگرچہ ناول بدنصیبی، خستہ حالی، ظلم، بدامنی، بغاوت، سرکشی، سازش،مکاری، لوٹ مار، قتل و خون وغیرہ سے عبارت ہے۔ اس میں جنگ بھی ہے، مذہب بھی ہے اور محبت بھی۔ تاہم اس میں ایسے کردار بھی ہیں جو بے انتہا فیاض ہیں، مذہبی ہیں، نیک نیت والے اور عام شہری ہیں، جنہوں نے اُس دورِ ابتلا میں پریشاں حال لوگوں کے لیے بھلائی کے کام بھی کیے تھے۔ اپنے زمانے میں ہیوگو کو وہی درجہ حاصل تھا جیسا کہ جرمن زبان میں گوئٹے کو اور اردو میں غالب و میر کو ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مصنف موضوع میں اتنا ڈوب کر اور اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ تحریر کرتا ہے گویا وہ فکشن نہیں، تاریخ لکھ رہا ہو۔‘‘

اس کے علاوہ وکٹر ہیوگو کا The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ اسے بھی دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے دراصل اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور لوگوں کے رویّوں کے ساتھ اجتماعی زندگی کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ اس طرح‌ پیش کیے کہ وہ قارئین کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ناقدین کو بھی چونکاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے عہد کے بڑے نقّادوں نے اہمیت دی اور اس کی تخلیقات پر مضامین سپردِ قلم کیے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں