غزہ میں فتح و شکست کے حوالے سے غزہ میں مقیم ایک نرس اور مصنفہ حدیل عواد نے اپنا دل کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق حدیل عواد نے لکھا ’’آخر کار جنگ بندی ہو گئی، 15 ماہ کی مسلسل نسل کشی کی جنگ کے بعد، ہم آخر کار راحت کی سانس لینے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے قابل بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کیا بچا ہے۔‘‘
انھوں نے لکھا ’’ایسے وقت جب ہم بموں سے محفوظ وقت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دنیا اس بارے میں ایک شدید بحث میں مصروف دکھائی دیتی ہے کہ کون جیتا ہے۔ کیا اسرائیل فاتح ہے؟ یا وہ حماس ہے جو اپنی فتح کا اعلان کر سکتی ہے؟ یا بہادر فلسطینی عوام فاتح ہیں؟‘‘
حدیل عواد نے کہا ’’میں ایک نرس ہوں، کوئی ماہر جنگ نہیں، اس لیے میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے، لیکن میں آپ کو بتاتی چلوں کہ دنیا کو اس دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کہ ہم بچ گئے، غزہ میں زندہ رہنا بہادری کے مترادف نہیں ہے، موت سے بچنا کوئی فتح نہیں ہے، ہم بہ مشکل ہی موت سے بچے ہیں لیکن دسیوں ہزار فلسطینی نہیں بچ سکے۔‘‘
اسرائیل نے انروا کو 48 گھنٹوں کا وقت دے دیا، امریکا نے پابندی کی حمایت کر دی
انھوں نے لکھا ’’نسل کشی کی جنگ نے وقت کو ایک دائرے میں بند کر دیا ہے، نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا، نہ کوئی منزل جس کی طرف ہم بڑھ رہے تھے، ہم صرف ایک دائرے میں چلتے رہے، ہر روز، آغاز کی طرف لوٹتے۔‘‘
حدیل عواد نے بتایا ’’ہر روز، ہر خاندان کو پینے اور دھونے کے پانی، کھانے اور آگ لگانے کے لیے کچھ چیزوں کی تلاش میں نکلنا پڑتا تھا، یہ بالکل بنیادی چیزیں ہیں، اگر یہ ملتے بھی تو ان سب کو حاصل کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے، روٹی جیسے بنیادی حق کی تلاش ایک بڑی جدوجہد بن گئی تھی، لوگوں کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے، اور امدادی تنظیموں کے پاس راشن ختم ہو گیا تھا۔‘‘ عواد نے دل دہلا دینے والے بات بتائی کہ ’’یہاں تک کہ وہ آٹا جس میں کیڑے پڑ گئے تھے، اور ایکسپائر ڈبہ بند کھانا بھی عیش و آرام کی چیز بن گیا تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس تکلیف دہ دائرے کو صرف موت توڑتا تھا، جب لوگ اپنے پیاروں کو دفنانے اور ان کا غم منانے کے لیے معمول کو توڑ دیتے تھے۔ بیرونی دنیا نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کی پرتشدد ہلاکتوں کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز دیکھے، لیکن انھوں نے مستقل بیمار یا قابل علاج بیماریوں سے متاثرہ افراد کی خاموش، دردناک موت کو نہیں دیکھا۔
عواد نے کہا ’’ہمارے ہاں انفیکشن والے لوگ اینٹی بائیوٹک کی عدم موجودگی کی وجہ سے مر جاتے تھے، ہمارے ہاں گردے کے مسائل والے لوگ مر جاتے تھے، کیوں کہ ڈائیلاسز کبھی کبھی ہی دستیاب ہوتا تھا، ان اموات کو سرکاری طور پر نسل کشی سے مرنے والوں کی تعداد میں شامل نہیں کیا گیا، ان میں سے بہت سی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔
انھوں نے لکھا کہ کیمپوں کی گلیوں میں آپ کو جگہ جگہ کوئی غم زدہ زندہ بچ جانے والے، روتے یا خاموش بیٹھے ملیں گے، یہ موت سے تو بچ گئے لیکن یہ وقت کے دائرے میں قید ہو چکے ہیں۔ اتنے مہینوں کے اجتماعی نقصان، جبر اور تڑپ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت سے فرار کے لیے دل میں مزید گنجائش نہیں رہی ہے۔
حدیل عواد نے یہ دردناک بات بھی لکھی کہ ’’میں بھی دوسرے بہت سے فلسطینیوں کی طرح خوفناک حد تک پرسکون اور بے حس ہو گئی ہوں، ہمارے کچھ خواب تھے، کبھی ہنستے گاتے تھے لیکن اب ہم خود کو بھی نہیں پہچان پا رہے، ہم ہم نہیں رہے، ہم جیسے تھے ویسے نہیں رہے۔‘‘
تاہم انھوں نے امید کا بھی اظہار کیا اور لکھا کہ بے شک، ہم اب ہم نہیں ہیں، لیکن ہم مردہ بھی نہیں ہیں، ہمارا یہ نیا ورژن جدوجہد کو جاری رکھنے، اور مزید جینے کے لیے بنایا گیا ہے۔