لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں اور والدین راضی نہ ہوں تو وہ پسند کی شادی کرلیتے ہیں جس کو کورٹ میرج کا نام دیا جاتا ہے۔
شادی دو افراد کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کے عہد وپیمان کا نام ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً شادیاں والدین اور سرپرستوں کی رضامندی سے ہوتی ہیں۔ تاہم بعض اوقات لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں اور والدین اس شادی پر راضی نہ ہوں تو وہ کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔
تاہم یہ بات قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ قانون میں کورٹ میرج نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کورٹ میرج کی اصطلاح ایسے عام ہے، جیسے اس حوالے سے ہمارے ہاں کئی مضبوط قانون موجود ہوں۔
کسی بھی قانون کے تحت کورٹ میرج نہیں ہو سکتی۔ کورٹ میرج میں بھی نکاح کا پراسس وہی ہوتا ہے جو عام نکاح میں ہوتا ہے تو پھر اس کو کورٹ میرج کیوں کہتے ہیں۔
اس حوالے سے قانونی ماہرین نے اے آر وائی نیوز ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نکاح دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شرعی اور دوسرا قانونی۔ شرعی نکاح کو رجسٹر کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ گواہان کی موجودگی میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان ایجاب وقبول کے ساتھ شادی ہو جاتیہ ہے۔
بات ہے اگر کورٹ میرج کی تو اس قسم کی شادی کا قانون میں ذکر نہیں، کیونکہ نکاح کرانا عدالت کا کام نہیں۔ نکاح کو نکاح خواں نے ہی رجسٹر کرانا ہوتا ہے۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ایسے جوڑے جو گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ ان کی شادی میں ان کے پیرنٹس نہیں ہوتے اور عموماً کورٹ میں ان کا نکاح ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کو کورٹ میرج کا تاثر دے دیا گیا ہے، لیکن کورٹ کو نکاح کا اختیار نہیں اس لیے یہ کورٹ میرج نہیں کہلا سکتی۔
ایک اور قانون دان نے کہا کہ یہ نکاح تو نہ کسی عدالت کے اندر ہوتا ہے اور نہ کسی جج کا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد لڑکا اور لڑکی کے خاندان میں نفرت بڑھتی ہے اور فریقین دونوں مقدمہ بازی میں الجھتے ہیں تو پھر یہ معاملہ عدالت میں آتا ہے جہاں عدالت لڑکی کی رضامندی پوچھ کر اس کو شوہر یا والدین کے ساتھ جانے کی اجازت دیتی ہے۔