بگلہ ایک سفید آبی پرندہ ہے جو دریائے سندھ کے فطری حسن سے متاثر ہو کر آیا اور پھر انسانی ہمدردی کے واقعہ نے اس کو ماہی گیر کا دوست بنا دیا۔
بگلہ ایک سفید خوب صورت آبی پرندہ ہے، جو دریائے سندھ کے فطری حسن سے متاثر ہو کر سندھ میں آیا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ انسانی ہمدردی کے واقعہ نے اس مہمان پرندے کو ماہی گیر کا ہمسفر اور دوست بنا دیا۔ یہ دوستی کیسے ہوئی جانتے ہیں حیدرآباد سے اشوک شرما کی اس رپورٹ میں۔
برسوں قبل سردیوں کی ایک شام کو ایک پردیسی بگلہ کسی شکاری کا نشانہ بنا تو زخمی ہو کر دریائے سندھ میں گرا۔ وہاں موجود ماہی گیر مجید ملاح نے اس بگلے کو بچایا اور علاج کرانے کے ساتھ اس کا خیال رکھ کر اس کو نئی زندگی دی۔
تب سے یہ بگلہ دریائے سندھ کے کنارے آباد کوٹری شہر کے باسی مجید ملاح کی ماہی گیر بستی کا باسی بن گیا۔ جو دریا کے کنارے اور بستی کی گلیوں میں بے خوف گومتا رہتا ہے۔
مجید ملاح نے اس بگلے کا نام پیار سے ببن رکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انسان اور پرندہ نہ صرف ایک دوسرے سے مانوس ہوتے گئے بلکہ ماہی گیر اور بگلے کے تعلق نے دوستی کا ایسا روپ اختیار کر لیا، جو 10 برس میں ایک شاندار مثال بن چکا ہے۔
ماہی گیر کا کہنا ہے کہ ببن نہ صرف اس کے گھر کا ایک فرد بن چکا ہے بلکہ اس کے دوست بھی اس بگلے سے اولاد جتنا پیار کرتے ہیں۔
ببن بگلہ اور مجید زیادہ تر ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ وہ شکار پر جاتا ہے تو ببن بھی ساتھ ہوتا ہے۔ ماہی گیر دریا میں مچھلی کا شکار کرتا ہے اور ببن کشتی پر دریا کی سیر کرکے لطف اندوز ہوتا ہے۔
یہ پرندہ نہ صرف اپنے ماہی گیر دوست کے اشارے اور زبان سمجھتا ہے بلکہ اس کی ہدایت پر اڑان بھر کر آسمان کی بلندیوں کو چھوتا اور مخصوص آواز سنتے ہی لوٹ آتا ہے۔
مجید ملاح اپنے اس دوست پرندے کا بہت خیال رکھتا ہے اور اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا ہے۔ سرد موسم کا عادی یہ بگلہ اگر زیادہ گرمی ہو تو خود دریا میں ڈبکیاں لگا کر گرمی کی شدت کم کرتا ہے۔
جب دریا کی موجیں رواں دواں ہوتی ہیں تو ماہی گیر خوشحال اور روزگار عروج پر ہوتا ہے، لیکن ان دنوں کوٹری بیراج سے ڈاؤن اسٹریم میں پانی کا اخراج بند ہونے کے باعث دریا خشک سالی کا شکار ہے۔ اس لیے ماہی گیر مجید ملاح کے لیے روزگار اور ببن بگلے کے لیے خوراک کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔