خواتین پر تشدد یا ہراسمنٹ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے، بہت سی خواتین اپنا گھر بچانے کیلئے اس ظلم کو تو برداشت کرتی ہیں لیکن آواز نہیں اٹھاتیں۔
عورتوں کی اس خاموشی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس طرح کے تشدد کو معاشرے میں بڑی حد تک نارمل سمجھا جاتا ہے۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات سے متعلق ایس ایس پی اے آئی جی جنرل کرائم شہلا قریشی نے تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی سروے رپورٹ کے مطابق 59 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟ بدقسمتی سے ہماری شرح خواندگی کی وجہ سے ہراسمنٹ یا گھریلو تشدد ہونا معمول کی بات ہے پر آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر کامل عارف کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی بہت سی اقسام ہیں بدقسمتی سے اب صرف خواتین ہی ہراسمنٹ کا شکار نہیں ہوتی اس میں مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دماغی طور پر بیمار اور کند ذہن ہیں، جو بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ہراسمنٹ کے جرم کی سزا کے حوالے سے سوال پر شہلا قریشی نے بتایا کہ عام طور پر ہراسمنٹ کے الزام کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہراسمنٹ کے مجرم کیخلاف اگر کوئی ٹھوس ثبوت مل جائے تو اس پر پاکستان پینل کوڈ کے اندر سیکشن 509 کا اطلاق ہوتا ہے جس کی سزا 3 سال کی سزا اور 5لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 47 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔
این سی ایچ آر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تشدد کا سلسلہ شادی کے بعد چلتا رہتا ہے، جس کا اکثر خاتمہ طلاق پر ہی ہوتا ہے۔