بدھ, اپریل 16, 2025
اشتہار

ڈبلیو زیڈ احمد:‌ معروف پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

آج کے دور میں‌ فلمی موضوعات، کہانیاں اور فلم سازی کی تکنیک بھی بدل گئی ہے، لیکن چند دہائیوں قبل پاکستان میں رومانوی کہانیوں میں ولن اور مار دھاڑ سے بھرپور مناظر ہی شائقین سنیما کو بھاتے تھے اور فلم سازوں‌ کی اکثریت یہی پیش کرتی تھی۔ ڈبلیو زیڈ احمد اسی دور کے فلم ساز اور ہدایت کار تھے جنھوں نے اپنے کام میں انفرادیت کے سبب انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائی۔

آج پاکستان میں نئی نسل ڈبلیو زیڈ احمد سے واقف نہیں، لیکن ستّر سال سے زائد عمر کے وہ لوگ جو سنیما کے دیوانے رہے ہیں، ان کے ذہن میں شاید یہ نام کہیں محفوظ ہو۔ خاص طور پر جنھوں نے فلم ’وعدہ‘ دیکھی ہو وہ ڈبلیو زیڈ احمد کو جانتے ہوں گے۔ یہ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسے ایک عام رومانوی فلم کہا جاسکتا ہے جس میں ہیرو زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر کام یابیاں سمیٹتا ہے اور جب وہ اپنی محبوب کو اپنانے کے قابل ہوتا ہے تو ایک المیہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بہم نہیں‌ ہو پاتے۔ اس فلم نے ڈبلیو زیڈ احمد کے کمالِ فن کی بدولت کام یابی سمیٹی تھی۔

ڈبلیو زیڈ احمد 15 اپریل 2007ء کو انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا اور اسی مناسبت سے انھیں ڈبلیو زیڈ احمد لکھا جانے لگا۔ یہی مختصر نام فلم نگری اور فلمی صحافت میں‌ ان کی شناخت بنا۔ آخری برسوں میں ڈبلیو زیڈ احمد کی یادداشت صحیح طرح‌ کام نہیں کررہی تھی اور ایک عرصہ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بستر پر رہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔

ڈبلیو زیڈ احمد نے گودھرا کے ایک گھرانے میں 20 دسمبر 1915ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں وسطی اور جنوبی ہند کے مختلف اضلاع میں قیام پذیر رہے۔ وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں جب وہ نوجوانی کی دہلیز پر تھے، فلم نگری میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور اس کی ابتدا 1939 میں ہوگئی۔ پہلی مرتبہ ڈبلیو زیڈ احمد نے اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کیا، مگر انھوں نے دیکھا کہ ان کے لکھے ہوئے کی عکس بندی بعجلت کی گئی اور خیال کیا کہ شاید یہ ایک مشکل کام ہے، تب ڈبلیو زیڈ احمد نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور اگلے تین سال کے اندر پونا اور مدراس میں اپنے اسٹوڈیو تعمیر کر کے فلم سازی میں مشغول ہوگئے۔

ڈبلیو زیڈ احمد نے شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے تحت پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو کام یاب رہی۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ وہ اس فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ اس فلم میں مرکزی کردار موجودہ ہندی سنیما کی مشہور فلم ایکٹریس کرشمہ کپور اور کرینا کپور کے پَر دادا، رشی کپور کے دادا اور راج کپور کے والد پرتھوی راج نے ادا کیا تھا۔ اگلے ہی برس اُن کی فلم پریم سنگیت منظرِ عام پر آئی جس کے ہیرو جے۔ راج تھے۔ اس کے بعد انھوں نے فلم من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ تمام فلمی نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ ناقدین کے مطابق ڈبلیو زیڈ احمد کو پہلی بڑی کام یابی 1944ء میں اُن کی فلم ’من کی جیت‘ پر ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی ٹامس ہارڈی کے معروف ناول ’TESS‘ پر مبنی تھی۔ اس میں ہیرو شیام کے مقابل راج کماری اور نِینا نے کام کیا تھا۔ بعد میں ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے نینا سے دوسری شادی بھی کی تھی۔ اُن کی پہلی شادی سر ہدایت اللہ کی صاحبزادی صفیہ سے ہوئی تھی۔

فلم من کی جیت کا ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا اور ہندوستان بھر میں کئی برس بعد بھی لوگ اسے گنگناتے تھے جس کے بول تھے: اک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا…

قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہاں اپنے نام سے اسٹوڈیو قائم کرلیا، بعد ازاں فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے ایک فلم ساز ادارہ بھی بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر بورڈ کے اعتراضات کی نذر ہوگئی تھی۔ وعدہ، وہ فلم تھی جس نے زبردست کام یابیاں سمیٹیں اور اسے فلم انڈسٹری کی بہترین اور یادگار فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

تقسیمِ ہند سے قبل ان کی آخری فلم ’میرا بائی‘ تھی جو 1947 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان آنے کے بعد وہ صرف دو ہی فلمیں بناسکے تھے، لیکن یہ دونوں پاکستان کی فلمی تاریخ میں یادگار اور نمایاں ہیں۔ ایک فلم وعدہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جب کہ دوسری فلم ’روحی‘ تھی۔ یہ 1954 میں ریلیز ہوئی جس کے لیے ہدایات بھی ڈبلیو زیڈ احمد نے دی تھیں اور وہی کہانی کار اور منظر نویس بھی تھے۔

روحی کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں تاریخی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سینسر بورڈ کے ہاتھوں بین ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ سنسر بورڈ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ فلم میں امیر اور غریب کا ایسا تصادم دکھایا گیا ہے جس سے طبقاتی سطح پر لوگوں‌ میں نفرت پیدا ہوسکتی ہے۔ ڈبلیو زیڈ احمد کی اس فلم کو معمولی کاٹ چھانٹ کے بعد سینسر بورڈ سے ریلیز کرنے کی اجازت تو مل گئی اور یہ عام نمائش کے لیے پیش بھی کی گئی، لیکن یہ ایک کوآپریٹیو سوسائٹی کے تحت پروڈیوس کردہ فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے چند دنوں بعد کوآپریٹیو بینک نے اپنا قرضہ وصول کرنے کے لیے چھاپا مارا اور فلم کا پرنٹ اٹھا کر لے گئے۔ یوں فلم روحی کے پرنٹ کو کہیں‌ ڈبّوں میں ڈال دیا گیا اور اس کا نیگٹو بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس فلم میں اداکار شمّی، سنتوش، ساحرہ، غلام محمد نے کام کیا تھا۔

ڈبلیو زیڈ احمد کو لاہور میں بیدیاں روڈ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں