اودھ کے فرماں رواؤں کو ان کی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی اور سرپرستی کی وجہ سے شہرت اور تاریخ میں خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس ریاست کے آخری فرماں روا نواب واجد علی شاہ اختر بھی اپنی ادب دوستی اور باکمال و یکتائے زمانہ شخصیات پر اپنی نوازش و اکرام کے سبب مشہور ہیں۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور شعرا کی پذیرائی بھی کرتے تھے۔
نواب واجد علی شاہ کو رنگین مزاج اور عیّاش نواب بھی کہا جاتا ہے، تاہم ان کی ایسی شہرت دراصل انگریزوں کی جانب سے پھیلائی گئی باتوں کا نتیجہ تھی۔ وہ 1822ء کو اودھ کے شاہی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام ابو المنصور سکندر شاہ پادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر تھا۔ انھیں شروع ہی سے رقص، شاعری اور موسیقی سے لگاؤ تھا۔ خود بھی رقص، گانے بجانے کے ماہر تھے۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ ناٹک کو بھی فروغ دیا اور ڈرامے لکھے جنھیں باقاعدہ پردے پر پیش کیا جاتا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کتھک رقص کو نئی زندگی دی۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کا احیا کیا اور اس میں طاق اور ماہر فن کاروں کو لکھنؤ میں جمع کیا۔ انھوں نے اس فن میں استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں سے تربیت لی تھی۔ واجد علی شاہ نے خود کئی نئے راگ اور راگنیاں ایجاد کی تھیں۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی فرماں روا ادب، تہذیب و ثقافت کا ایسا دلدادہ نہیں تھا جیسا کہ واجد علی شاہ اختر تھے۔ انھوں نے رقص اور موسیقی کے رموز پر تحریری مواد بھی یادگار چھوڑا جو سو سے زائد کتابچوں پر مشتمل ہے۔
ہندوستان کے اس تہذیب و ثقافت کے دلدادہ حکم راں کو انگریزوں کی وجہ سے الم ناک حالات میں لکھنؤ چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی زوجہ حضرت محل کے نام سے مشہور ہیں جو خود بھی شاعرہ تھیں اور انھوں نے بعد میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں بڑا اہم کردار نبھایا۔
واجد علی شاہ کی تخت نشینی کا سن 1847ء تھا جس کے فوراً ہی بعد ان پر ریاست میں بدنظمی، انتشار کو روکنے میں ناکامی اور نا اہلی کے الزام لگا کر انھیں معزول کردیا گیا۔ انگریز تمام اختیار اور انتظام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا اور اس کے لیے انھوں واجد علی شاہ کو ناکام والی ثابت کرکے چھوڑا۔ اس ضمن میں ایک برطانوی افسر نے ریاست کا دورہ کرکے اپنی رپورٹ تیار کی اور حکام کو بھیجی جس کی بنیاد پر انھیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، وہ 1857 میں واجد علی شاہ اپنے بیٹے کو تخت نشیں کر کے خود وہاں سے رخصت ہوگئے۔ وہ بعد میں یکم ستمبر 1887ء کو کلکتہ میں وفات پاگئے۔
مذکورہ رپورٹ کی تیاری کے لیے برطانوی افسر اور اس کی ٹیم کے اراکین نے تین مہینے تک ریاست کا دورہ کیا اور رپورٹ میں رعایا کی تباہ حالی اور حکام کی سر کشی کا ذکر کرتے ہوئے لکھنؤ میں لاقانونیت، قتل اور لوٹ مار معمول ظاہر کی گئی جس کے بعد واجد علی شاہ کو معزولی کا سامنا کرنا پڑا۔