ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے:
جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”
سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔
"ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
"ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
"توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”
تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔
"او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔
"بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔
"ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”
پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔
"اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔
راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔
"اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
"اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”
ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔
"یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:
"جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”
راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”
پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”
"مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”
پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔
راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”
راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔
"دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔
ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔
"کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔
راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”
رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”
"اور کیا ایک کھایا؟”
"تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”
"یہ بات۔۔۔۔؟”
"یہ بات۔۔۔۔!”
پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔
چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟
رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”