وارسا: امریکی سیکرٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے سقم دور کیے جائیں گے‘ دوسری جانب ایران نے معاہدے پر مزید کوئی بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی سیکرٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن گزشتہ ایک ہفتے سے یورپ کے دورے پر تھے اور اس بات کا اظہار انہوں نے اس دورے کی آخری منزل پولینڈ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے حوالے سے ورکنگ گروپ نے کا م شروع کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے میں موجود سقم دور کرنے کے لیے کام شروع کردیا گیا ہے اور دیکھا جار ہا ہے کہ اس معاہدے کے جاری رہنے کے کیا امکانات ہیں اور ان میں ایران کو کیا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ٹیلرسن کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنبیہہ کی تھی کہ اگر معاہدے میں ضروری تبدیلیا ں نہیں کی گئیں تو امریکا اس معاہدے سے باہر نکل جائے گا۔ اس کے بعد ہونے والے اس دورے میں برطانیہ فرانس اور جرمنی – معاہدے کے تمام عالمی فریقوں نے اس پر کام کرنے کے حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سحر سے قبل اندھیر ا بہت شدید ہوجاتا ہے ۔ ورکنگ گروپ کام کررہا ہے کہ اصول طے کیے جاسکیں اور یہ جانا جائے کہ ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس مرحلے پر ایران کو مذاکرات میں کس حد تک ملوث کرنا ہے۔
عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ ہوگئیں‘ امریکا تنہا
امریکی صدر نے جوہری معاہدے کے ساتھ ایک اور سائیڈ معاہدے کے نہ ہونے کی صورت میں امریکی پابندیاں نہ اٹھانے کا عندیہ دیا تھا جس کے تحت ایران کسی بھی قسم کی ایٹمی سرگرمیاں آہستہ آہستہ دوبارہ شروع نہیں کرسکے گا۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بھی سخت پابندیا ں عائد کی جائیں ۔ دوسری جانب ایران کی جانب سے اس معاہدے پر مزید کسی قسم کی گفت وشنید اور نئی شرطوں کو شامل کرنے کے خیال کو رد کیا جاچکا ہے۔
دوسری جانب ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے امریکی صدر کے اعلان کے بعد روس کا دورہ کیا تھا اور اس عالمی معاہدے پر روس کی حمایت حاصل کرنے کے بعد ٹویٹر پر ایک تنبیہہ آمیز پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ’’ ہرفریق اس بات پر متفق ہے کہ معاہدے کے تمام تر فریق اس کی شقوں کے تحت اس کی پاسداری کریں۔ عالمی نیوکلیئر ایجنسی تصدیق کرچکی ہے کہ ایران معاہدے کی پاسداری کررہا ہے اور اس معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے امریکا کی جانب سے مکمل پاسداری ضروری ہے‘‘۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے اوائل میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آخری مرتبہ ایران کے جوہری معاہدے کی توثیق کررہے ہیں تاکہ یورپ اور امریکہ معاہدے میں
پائے جانے سنگین نقائص کو دور کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ اگر کسی بھی وقت انہیں اندازہ ہوا کہ اس طرح کا معاہدہ نہیں ہوسکتا تو وہ معاہدے سے فوری طور پر دستبردار ہوجائیںگے۔ ایران پر پابندیوں میں نرمی کی توثیق ہونے پرنرمی میں مزید 120 دن کا اضافہ ہوگیا ہے ۔
ایرانی پارلیمنٹ نے امریکہ کی نئی پابندیوں اور معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کے جواب میں ملک کے میزائل پروگرام اور پاسداران انقلاب کے بیرون ملک آپریشنز کے لیے 50 کروڑ ڈالر فنڈز مختص کرنے کی منظوری بھی دے دی تھی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔