تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

چاند پر نظر آنے والے دھبے دراصل کیا ہیں؟‌ تحقیق کے نتائج میں‌ حیران کن دعویٰ

نیویارک: خلائی تحقیقاتی ماہرین نے چاند پر پانی تلاش کرنے کا دعویٰ  کیا ہے، جس سے ناسا ماہرین کی اس بات کو تقویت مل سکتی ہے کہ چاند پر نظر آنے والے دھبے دراصل گڑھوں میں منجمد برفیلے پانی کے نظر آتے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق خلائی تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ چاند کے غیر متوقع حصے پر  مشتبہ طور پر پانی کے ذخائر بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ یہ پانی مائع نہیں بلکہ منجمد (جمع ہوا) برف کی صورت میں ہے، جو ایک خاص حصے کے پاس موجود ہے اور اس کے قریب پہنچنا بہت مشکل مرحلہ ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ وہ اس بات کے جواب کو تلاش کرنے کے حوالے سے تحقیق میں مصروف تھے کہ ’چاند کے جن  حصوں پر سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی تو کیا وہاں پانی موجود ہے؟‘۔

ناسا ماہرین کا ماننا تھا کہ چاند پر نظر آنے والے دھبے دراصل وہ گڑھے ہیں، جن میں پانی موجود ہوسکتا ہے، جو درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ سے متاثر بھی ہوتا ہوگا۔

مزید پڑھیں: اب چاند پر گاڑی بھی جائے گی

ناسا ماہرین کی اس تھیوری پر  تحقیقات جاری تھیں، حال ہی میں دو یونیورسٹیوں نے مطالعہ مکمل کرنے کے بعد اس کے نتائج جاری کیے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاند کے سخت اور اُن حصوں میں منجمد پانی ہے جہاں پر سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

رپورٹ کے مطابق دونوں یونیورسٹیز نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ عالمی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کو ارسال کردی ہیں، جس پر غور کرنے کے بعد عالمی ماہرین اسے منظور یا مسترد کریں گے۔

یونیورسٹی آف کلوراڈو کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’چاند کی سطح کے ہر طرف پانی موجود ہے، جو مختلف کیمیکلز کی صورت میں ہے‘۔

Comments

- Advertisement -