کراچی: بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار ملک بھر سے آنے والے افراد کے لیے ایک مقام عقیدت ہے اور کراچی سمیت ملک بھر سے لوگ یہاں آتے اور قائد کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ لیکن اس خوبصورت مزار کو ایک بڑے خطرے کا سامنا ہے جس سے ارباب اقتدار سمیت عام لوگ بھی ناواقف ہیں۔
مزار قائد کے آس پاس کی زمین تیزی سے سیم زدہ ہو رہی ہے جس سے یہاں کی ہریالی اجڑنے کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اگر ہنگامی بنیادوں پر اس کے حل کے لیے کام نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ یہاں کی زمین بنجر ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ مزار قائد کے آس پاس وسیع و عریض رقبے کو ہریالی سے آباد کیا گیا ہے اور یہاں مختلف اقسام کے درخت اور پھول لگائے گئے ہیں۔
اس بارے میں ایک شہری عبد الحمید بتاتے ہیں کہ دو سال قبل ان کے مشاہدے میں آیا کہ اس سیم کے باعث مزار قائد پر منفی اثر پڑ رہا ہے جس کے بعد انہوں نے سنہ 2015 میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نام مفاد عامہ کے تحت ایک شکایتی خط تحریر کیا۔
ان کے مطابق انہوں نے خط میں لکھا کہ سیم کی وجہ سے مزار کے باغ میں موجود متعدد درخت سوکھ گئے ہیں اور صرف ان کا تنا باقی رہ گیا ہے۔
عبدالحمید کو ہائیکورٹ سے جواب موصول ہوا کہ وہ اس سلسلے میں ایک درخواست دائر کریں۔ عبد الحمید نے مزار کے انتظامی بورڈ سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ 30 دن کے اندر مزار کی حالت بہتر کرنے کے اقدامات کریں بصورت دیگر وہ عدالت میں درخواست دائر کردیں گے۔
عبد الحمید کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ غور سے جائزہ لیں تو آپ کو علم ہوگا کہ مزار کے صرف وہی حصے خستہ حالی کا شکار ہیں جو عام افراد کے لیے کھلے ہیں۔ وی آئی پی شخصیات کے لیے مختص حصہ نہایت صاف ستھرا اور منظم حالت میں رکھا گیا ہے۔
تاہم قریب ہی رہائش پذیر ایک انجینئر کا کہنا ہے کہ یہ انتظامیہ کی غفلت نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے جس کی وجہ سے مزار کے درخت سوکھ رہے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ مزار قائد شہر کے ایسے حصہ میں واقع ہے جو شہر کے بقیہ حصوں سے نیچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے شہر کا زیر زمین پانی یہاں جمع ہوجاتا ہے۔
اس بارے میں ہارٹی کلچر سوسائٹی کے رکن رفیع الحق نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سیم و تھور کا عمل مزار کے صرف ایک چھوٹے سے حصے میں جاری ہے۔
ان کے مطابق مزار کی دیواریں مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑی ہیں اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ سیم پورے مزار کو متاثر کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیم سے متاثرہ حصے میں بھی بڑے درخت تو اس کو سہہ جائیں گے اور واپس اپنی اصل حالت میں آجائیں گے، البتہ چھوٹے پودوں اور درختوں کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔
رفیع الحق کا کہنا تھا کہ مزار کی انتظامیہ کو اس مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے ماہرین ماحولیات سے رجوع کرنا چاہیئے تاکہ ماہرین کی زیر نگرانی اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
اس سے قبل بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات اور قومی ورثے نے بانی پاکستان کے مزار پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔