تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

زندگی میں کبھی ایسا کوئی واقعہ بھی پیش آتا ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی، اور اس کی کوئی توجیہ بھی نہیں پیش کر پاتی۔ بہت غور کرنے، سوچنے، واقعات کی کڑیاں ملانے کے باوجود ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایک ایسا ہی واقعہ اپنی مشہور خود نوشت سوانح عمری میں نقل کیا ہے۔

یہ حیران کُن واقعہ اور پُراسرار ہستی کا تذکرہ مصنّف کی کتاب "شام کی منڈیر سے” میں شامل ہے۔ وزیر آغا پاکستان کے ممتاز نقاد، ادیب، شاعر، محقق اور انشائیہ نگار تھے۔ انھوں نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے:

"میں جھنگ میں دو سال مقیم رہا۔ پہلا سال تو میں نے مگھیانہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گزارا اور دوسرا سال کالج کے ہاسٹل میں۔ میرے یہ عزیز مگھیانہ شہر کے کوتوال تھے۔ نہایت سخت مزاج تھے۔ عام طور سے پنجابی میں باتیں کرتے لیکن جب غصّہ آتا تو اردو میں منتقل ہو جائے اور اردو ایسے کرخت لہجے میں‌ بولتے کہ محسوس ہوتا پشتو بول رہے ہیں۔ البتہ اردو بولنے کے دوران گالیاں پنجابی میں دیتے۔ کہتے اردو میں گالیاں دوں تو ملزم اقبالِ جرم نہیں کرتا۔”

ان کے مکان کے پاس ایک قدیم قبرستان تھا جس میں ایک فقیر سائیں چھلّے شاہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے اس عزیز کے پاس بھی آتا اور گھنٹہ بھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے رخصت ہو جاتا۔ میرے یہ عزیز اس کے عقیدت مند تھے اور اسے ایک پہنچا ہوا فقیر سمجھتے تھے مگر ہم لڑکے بالے ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے۔”

"ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے اس سے خوف آنے لگا۔ ہُوا یہ کہ میں‌ گھر کے باہر ایک میدان میں چارپائی پر لیٹا سردیوں کی دھوپ سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ سائیں چھلّے شاہ دوسری چارپائی پر آکر بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتے رہے۔ پھر کہا، مجھے کچھ روپے دو! میں‌ بے اختیار ہنس پڑا۔ میں نے کہا، بابا جی میرے پاس روپے کہاں؟ واقعی میری جیب میں اس وقت بمشکل ایک روپے کی ریزگاری ہوگی۔ اگر روپے ہوتے بھی تو میں اسے کیوں دیتا؟ بابا نے گھور کر مجھے دیکھا اور تقریباً چیخ کر کہا۔ روپے نہیں‌ ہیں‌ تمھارے پاس؟ اور وہ دس روپے کا نوٹ کیا ہوا؟ میں نے حیران ہو کر کہا، کون سا دس روپے کا نوٹ بابا جی؟ مگر بابا جی نے میری بات کا جواب نہ دیا اور بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔”

"دوپہر جب میں‌ نہانے کے لیے غسل خانے میں‌ گیا اور میں‌ نے قمیص کے نیچے پہنی ہوئی بنڈی کو اتارا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ پچھلے ماہ جب میں وزیر کوٹ سے آیا تھا تو میری ماں نے بنڈی کی جیب میں‌ دس روپے کا نوٹ رکھ کر جیب کو سِی دیا تھا۔ انھیں سلانوالی کا تلخ تجربہ شاید یاد تھا۔ اس لیے انھوں نے میرے لیے واپسی کے کرایہ کا بندوبست کردیا تھا۔ میں نے جیب کو چُھوا، نوٹ جیب میں‌ موجود تھا۔ یکایک مجھے بابا جی کا سوال یاد آیا گیا اور میں‌ تادیر سوچتا رہا کہ بابا جی کو اس نوٹ کا علم کیسے ہوگیا؟ اس واقعے کو آج اڑتالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ تاحال مجھے اس کا جواب نہیں‌ ملا۔”

Comments

- Advertisement -