یونیسف کا کہنا ہے کہنا کہ جنگوں، معاشی دھچکوں اور موسمیاتی بحران کی وجہ سے کئی ممالک میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی بڑی تعداد ’’شدید درجے کی جسمانی کمزوری‘‘ کا شکار ہے، اور اس کمزور کو اس نے ’چھپے قاتل‘ قرار دیا ہے۔
جو بچے غذائیت بھری محفوظ خوراک سے محروم رہتے ہیں، اور اسہال، خسرے اور ملیریا جیسی بیماریوں کا متواتر نشانہ بنتے ہیں، وہ اس چھپے قاتل کا ہدف بن جاتے ہیں، جس سے بچاؤ کے لیے شفا بخش غذا کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بچوں کا خاموش قاتل کیوں ہے؟ یونیسف کا کہنا ہے کہ شدید جسمانی کمزوری کے شکار بچے دبلے ہوتے جاتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس طرح ان کی بڑھوتری متاثر ہوتی ہے اور بالآخر وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
شفا بخش غذا؟
اس غذا کو ’’آر یو ٹی ایف‘‘ کہا جاتا ہے، جو خشک دودھ، مونگ پھلی، مکھن، مچھلی کے تیل، چینی اور کئی طرح کے وٹامن اور نمکیات کو ملا کر بنایا جاتا ہے، اس سے دنیا بھر میں لاکھوں بچوں میں شدید غذائی قلت سے پیدا ہونے والے جسمانی مسائل پر قابو پایا جا چکا ہے۔
یونیسف نے کہا ہے کہ ’آر یو ٹی ایف‘ کی قلت کے باعث 12 غریب ترین ممالک میں بچوں کو اس غذائیت سے محرومی کا خدشہ ہے، افریقی ملک مالی، نائجیریا، نائجر اور چاڈ میں اس کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے یا ختم ہونے کو ہے جب کہ کیمرون، پاکستان، سوڈان، مڈغاسکر، جنوبی سوڈان، کینیا، جمہوریہ کانگو اور یوگنڈا میں اس خوراک کا ذخیرہ آئندہ سال کے وسط تک ختم ہو سکتا ہے۔